چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) ایسے کام کرنے پر ویغوروں کو حراست میں لینے کے لیے بِگ یعنی بڑے ڈیٹا اور نگرانی کے نظام کو استعمال کر رہی ہے جنہیں کرنے کی ویغوروں کو عوامی جمہوریہ چین کے قوانین کے تحت اجازت حاصل ہے۔ اِن کاموں میں قران پاک کی تلاوت کرنا اور بیرونی ممالک میں مقیم خاندان کے افراد کو ٹیلی فون کرنے جیسے کام بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا ایک نئی رپورٹ میں کہنا ہے کہ سی سی پی ویغوروں کی ممکنہ حراست کے لیے نگرانی کرنے والے کیمروں، موبائل فونوں، پولیس کے ناکوں اور دیگر ذرائع سے انٹیگریٹڈ جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم یا (آئی جے او پی) کے نظام کو استعمال کر رہی ہے۔
اس رپورٹ کاعنوان ” چین: بڑے ڈیٹا کے پروگرا کا ہدف – شنجیانگ کے مسلمان” ہے۔ اس کی بنیاد ایچ آر ڈبلیو کے آکسو پریفیکچر یعنی ضلعے سے افشا ہونے والی حراست میں لیے جانے والے دو ہزار افراد کی فہرست کے تجزیے پر مبنی ہے۔ اس تجزے سے پتہ چلا ہے کہ اس فہرست میں شامل افراد میں سے زیادہ تر کو غیرمتشدد کاموں کی وجہ سے حراست کے لیے منتخب کیا گیا۔
9 دسمبر کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں ایچ آر ڈبلیو کی چین سے متعلق تحقیقی کام کرنے والی، مایا وانگ کہتی ہیں، “آکسو فہرست اندرونی حالات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بتاتی ہے کہ چین کے سنکیانگ کے ترک النسل مسلمانوں پر وحشیانہ جبر میں ٹیکنالوجی کے ذریعے کس طرح تیزی لائی جارہی ہے۔”
وانگ مزید کہتی ہیں، “چینی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آئی جے او پی بند کرے، جمع کیے گئے سارے ڈیٹا کو حذف کرے، اور سنکیانگ میں من مانے طریقے سے حراست میں لیے جانے والے تمام افراد کو رہا کرے۔”
Today, @hrw published new research based on a leaked list of over 2,000 detainees from Aksu Prefecture, Xinjiang. The "Aksu List" shows how Xinjiang's big data system, Integrated Joint Operations Platform, selected people for detention. https://t.co/xqDxpV6Fj5
— Maya Wang 王松莲 (@wang_maya) December 9, 2020
2017ء سے لے کر آج تک سی سی پی شنجیانگ میں دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور مسلم اکثریت والے نسلوں کے دیگر اقلیتی گروپوں کے افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔ حراست کے دوران ان سب کو اپنی مذہبی اور نسلی شناختوں کو ترک کرنے اور سی سی پی کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
آکسو فہرست سے حراست میں لیے جانے والے دو ہزار افراد کی نشاندہی ہوتی ہے اور سی سی پی کی طرف سے اِن افراد کو حراست میں لیے جانے کی وجوہات کا پتہ چلتا ہے۔ جو وجوہات بیان کی گئی ہیں اُن میں شنجیانگ کے اندر سفر کرنے یا کسی بیرونی ملک میں اپنے کسی رشتہ دار سے بات کرنے سے لے کر 1980ء کے بعد پیدا ہونے تک کی قانونی وجوہات شامل ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے جب آئی جے او پی نظام کسی فرد کی ممکنہ حراست کی نشاندہی کرتا ہے تو پولیس یا انتظامی اہل کار سرکاری وکیلوں یا عدالتوں سے مشورہ کیے بغیر ممکنہ حراست کے بارے میں فیصلے کرلیتے ہیں۔ اُن کا یہ فعل چینی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آکسو پریفیکچر کی 80 فیصد آبادی ویغوروں پر مشتمل ہے اور حراست میں لیے جانے والے تمام افراد ویغور ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، “شنجیانگ کے ترک النسل مسلمانوں کی اجتماعی نگرانی اور من مانی حراستوں سے چینی آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
امریکہ نے جولائی میں شنجیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے سلسلے میں سی سی پی کے عہدے داروں اور اداروں پر پابندیاں لگائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ایسی کمپنیوں کو مخصوص قسم کی ٹکنالوجیوں کی برآمدات بھی محدود کردیں جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں سے وابستہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی نگرانی کے پروگراموں میں مدد کی تھی۔
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 10 دسمبر کو کہا، “دنیا ایسے میں خاموش تماشائی بنے کھڑی نہیں رہ سکتی جب پی آر سی کی حکومت چین میں لوگوں کے خلاف خوفناک اور منظم زیادتیوں کا ارتکاب کر رہی ہے جن میں بین الاقوامی سطح پر مسلمہ آزادی فکر، ضمیر، اور مذہب یا اعتقاد کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔”