یالقون روزی نے اپنی زندگی ویغور ادب اور تعلیم کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ مصنف، لیکچرار اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یالقون نے 100 سے زائد نصابی کتب کی تدوین کی اور انہیں مرتب کیا۔ اُن کا شمار اُن سرکردہ عوامی ویغور دانشوروں میں ہوتا ہے جو اِس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ اُن کی ثقافت اور روایات کو محفوظ رکھا جائے اور انہیں آنے والی نسلوں تک پہنچایا جائے۔
وہ اکتوبر 2016 میں غائب ہو گئے۔ اُن کے بیٹے کمال ترک یاقلون نے بتایا، “ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ کِس حال میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔”
چینی اہل کار 2018ء میں اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ یاقلون روزی کو “ملکی اقتدار کے خلاف بغاوت پر اکسانے پر” قید میں ڈالا گیا ہے۔ اُن کے بیٹے کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ویغور ثقافت کی حمایت کرنا تھی۔

اُن کے والد بشریاتی مضامین کی نصابی کتب کی تدوین کیا کرتے تھے، ویغور ثقافت پر مضامین شائع کیا کرتے تھے اور سکولوں کے لیے ویغور نصاب کی تیاری میں مدد کیا کرتے تھے۔ کمال ترک بتاتے ہیں کہ 2016ء میں اُس وقت ویغور نصابی کتب پر کام کرنے کو “نظریاتی مسائل کے ثبوت” کے طور پر لیا گیا جب چِن کوانگیو کو شنجیانگ ویغور کے خود مختار خطے کی کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ “میرے والد کو نصابی کتب تیار کرنے والی کمپنی کے سارے لوگوں [کے ہمراہ] گرفتار کر لیا گیا۔”
اُن کا کہنا ہے، “ہمیں علم نہیں کہ اُن کو کہاں لے جایا گیا کیونکہ اُنہیں بغیر کسی الزام کے گرفتار کیا گیا تھا۔” کمال ترک چین کے مشقتی کیمپوں کو بے نقاب کرنے” کے عنوان سے واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں ہونے والی ایک نمائش میں شرکت کرنے کے لیے واشنگٹن آئے تھے۔ اُن کی آمد کا مقصد شنجیانگ کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں مدد کرنا اور اپنے والد کی کہانی سنانا تھا۔
ثقافت کو دبانے کی رواں مہم
نسلی اقلیتوں کو دبانے کی اپنی رواں مہم کے سلسلے میں چینی حکومت دس لاکھ سے زائد ویغوروں، نسلی قازقوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے افراد کو قید میں ڈال چکی ہے۔
عالمی تنقید کے جواب میں چینی حکومت یہ دعوٰی کرتی ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام اور مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیے گئے یہ کیمپ مختلف دستکاریاں سکھانے کے ایسے سکول ہیں جو شنجیانگ میں رہنے والے لوگوں کو چینی زبان سکھانے اور چینی قانون کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے ضروری ہیں۔

اس کے برعکس یاقلون اور اگر ہزاروں نہیں تو اُن جیسے سیکڑوں دانشوروں کی گرفتاریاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت کو ملازمتوں کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ اِن کا تعلق نسلیت کو مٹانے سے ہے۔ اس ثقافتی خاتمے کو سکولوں میں ویغور زبان پر حالیہ پابندی لگانے، چینی کمیونسٹ پارٹی کے نعروں کو زبانی یاد کرنے کو لازمی قرار دینے اور چینی کھانوں اور مذہبی عبادات کو اختیار کرنے پر زبردستی مجبور کرنے کی شکلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کمال ترک نے کہا کہ “اِن مشقتی کیمپوں کو بند کروانے کے لیے” وہ اور دوسرے لوگ چین پر بیرونی دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
اُن کا کہنا ہے کہ جو چیز سب سے اہم ہے وہ “[چین] کے مشقتی کیمپوں اور یکطرفہ حراستوں کو ختم کرنا ہے۔”
چینی حکومت کی اندرونی دستاویزات کمال ترک کے نقطہ نظر کی تائید کرتی ہیں۔ اُن سرکاری دستاویزات کے مطابق جن کی اے ایف پی نے جانچ پڑتال کی ہے اِن کیمپوں کا مقصد “اُن کے نسلی سلسلے کو ختم کرنا، اُن کی جڑوں کو اکھاڑنا، اُن کے نسلی رشتوں کو ختم کرنا اور اُن کی اصلیتوں کو مٹانا ہے۔”
کمال ترک کہتے ہیں کہ چینی حکومت “ہماری ثقافت کا نام و نشان مٹانے اور ہماری علیحدہ شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ویغور لوگوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں، اُن کی ہمت کو توڑنے کے لیے اُنہیں نفسیاتی صدموں سے دوچار کر رہے ہیں.”