چینی اہل کار متواتر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ شنجیانگ کے کیمپ نوکریاں اور پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرتے ہیں۔ مگر اِن کیمپوں میں سے ایک کیمپ کی وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ایک تصویر نے اس دعوے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں۔
حال ہی میں ریڈیو فری ایشیا (آر ایف اے) نے حراست میں لیے گئے پانچ ایسے مردوں کی شناخت کی ہے جو ہوتان، شنجیانگ میں ایک حراستی کیمپ میں خاردار تاروں کے پیچھے قطاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پانچوں اچھے روزگاروں پر لگے ہوئے تھے بلکہ کچھ تو کامیاب کاروبار چلا رہے تھے۔ ریڈیو فری ایشیا کے مطابق زیر حراست افراد میں سے ایک صاحب تو اُس صنعتی علاقے میں ایک بیکری بنانے کی تیاری کر رہے تھے جہاں اب انہیں قید میں رکھا گیا ہے۔
آر ایف اے نے اس تصویر کا تعلق شنجیانگ کی عدالتی انتظامیہ کے ‘ وی چیٹ’ اکاؤنٹ سے جوڑا ہے جو کہ چینی حکومت کا سرکاری اکاؤنٹ ہے۔
Uyghur Inmates in Iconic Xinjiang Detention Camp Photo Identified https://t.co/bQ0xHJ6O9A
— Radio Free Asia (@RadioFreeAsia) April 29, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا ترجمہ: – شنجیانگ کے ایک بہت بڑے حراستی کیمپ میں زیر حراست ویغوروں کی ایک تصویر میں (چار افراد کی) نشاندہی۔
ہوتان کے ضلعے کی لوپ کاؤنٹی کے حراستی کیمپ میں قید چار ویغور قیدی جن کے نام ویغور زبان میں لکھے ہوئے ہیں۔ (بائیں سے دائیں) مامتی مین، عزیر حاجی شانگ تانگ، علی آہون کریم اور عبداللہ حارت۔ ایک پانچویں آدمی کی شناخت عبد العزیز حاجی کے طور پر ہوئی ہے۔
اِن مردوں کا شمار دس لاکھ سے زائد اُن ویغوروں، نسلی قازقوں اور مسلمان اقلیتی گروہوں کے افراد میں ہوتا ہے جنہیں اپریل 2017 کے بعد اِن کیمپوں میں قید میں رکھا گیا ہے۔ اِن میں سے بہت سوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اُن پر تشدد کیا جاتا ہے، اُنہیں اسلام ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں چینی کمیونسٹ پارٹی کا پراپیگنڈہ زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔
چین کی جانب سے شنجیانگ میں اپنی مسلمان اقلیت کی نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی شناختوں کو دبانے کے لیے چلائی جانے والی مہم پر دنیا بھر کے ممالک نے چین کی مذمت کی ہے۔ چینی حکومت انہیں حراستی “رہائشی سکول” بھی کہتی ہے۔
اِن لوگوں کی پہلی مرتبہ شناخت امریکہ میں موجود ‘ویغوروں کی عالمی کانگریس’ کے نائب صدر پرھات محمد نے ایک فیس بک پوسٹ میں کی اور ریڈیو فری ایشیا نے اُن کی شناختوں کی تصدیق مندرجہ ذیل افراد کے نام سے کی:
- مامتی مین ایک کاروباری نظامت کار اور طبی آلات کے سیلز مین ہیں۔
- عزیز حاجی شانگ تانگ، ایک نانبائی اور ریستوران کے مالک ہیں۔
- علی آہون کریم، مذہبی استاد اور جیڈ نامی سبز رنگ کے قیمتی پتھر کے تاجر ہیں۔
- عبداللہ حارت، ترکھان ہیں۔
- عبدالعزیز حاجی لیبر انشورنس بیورو میں ڈرائیور ہیں۔
ریڈیو فری ایشیا کی جانب سے اِن افراد کے دوستوں اور خاندانوں کے کیے گئے انٹرویوز کے مطابق اِن میں سے بہت لوگ اپنی مذہبی عبادات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
عزیز کے ایک ہمسائے نے آر ایف اے کو بتایا، “میرے خیال میں (عزیز حاجی شانگ تانگ) کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ 2002ء میں (سعودی عرب) حج کے لیے گئے تھے۔ انہوں نے اُن سب کو گرفتار کر لیا ہے جو ملک سے باہر گئے تھے۔”
علی کے ایک سابقہ کاروباری ساجھے دار نے بتایا، ” ہم سب (علی آہون کریم) کی مذہبی فہم و فراست سے متاثر تھے۔ میرا خیال ہے کہ اُس کی گرفتاری کی وجہ اُس کا مذہبی علم بنا ہے۔”

آر ایف اے کو عبداللہ حارت کے ایک ہمسائے نے بتایا کہ عبداللہ شیپانگ میں ایک مقامی مسجد کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ہمسائے نے کہا، “اس کی گرفتاری کی وجہ غالبا مسجد میں اس کا کام بنا۔ وہ ایماندار اور اچھے اخلاق کا انسان تھا۔”
چین شنجیانگ میں مسلمانوں پر کی جانے والی زیادتیوں میں اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ اس نے مسلمانوں پر مخصوص نام رکھنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے عمومی سفیر، سیموئل براؤن بیک نے کہا، “خاردار تاروں اور پہرے داروں کے مچانوں والے ہر سو پھیلے ہوئے اِن کیمپوں کو چین محض ‘پیشہ وارانہ تربیتی مراکز’ کہتا ہے۔ ہمیں اِن کیمپوں کو وہی کہنا چاہیے جو یہ ہیں۔ یہ حراستی کیمپ ہیں جو اقلیتی کمیونٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ثقافتی اور مذہبی شناختوں کو ختم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔”