
اپنے اقتصادی عروج کو تحریک دینے کے لیے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے آفاقی تجارتی اصولوں کا استحصال کیا۔ اب سی سی پی دوسرے ممالک اور کاروباروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اور دنیا بھر میں آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے اپنی اقتصادی طاقت استعمال کر رہی ہے۔
ریاست مشی گن کے شہر گرینڈ ریپڈز میں 16 جولائی کو تقریر کرتے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل، ولیم بار نے تفصیل سے بتایا کہ سی سی پی کس طرح اپنی معیشت کو ترقی دینے اور آمرانہ طرز حکومت برآمد کرنے کے لیے شکاریوں جیسے غیرقانونی ہتھکنڈے اکثر استعمال کرتے ہوئے ایک “اقتصادی برق رفتار حملے” میں مصروف ہے۔
ایسی دنیا کی تلاش جو ‘ آمریت کے لیے محفوظ ہو’
بار نے کہا کہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) “قانون پر قائم بین الاقوامی نظام کو ختم کرنے اور دنیا کو آمریت کے لیے محفوظ بنانے کی خاطر چینی عوام کی بے پناہ طاقت، پیداواری اور ہنرمندی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “یہ واضح ہے کہ پی آر سی محض دیگر صنعتی معیشتوں کی صفوں میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ وہ مکمل طور پر اُن کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔”
یہ انتباہ بڑھتے ہوئے اِس بین الاقوامی اتفاق رائے کے دوران سامنے آیا ہے کہ چین کی پانچویں نسل کی وائرلیس ٹکنالوجی کی کمپنوں کے آلات ٹیلی کمیونیکیشن کے نیٹ ورکوں کے لیے ناقابل قبول خطرات ہیں۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے بھی حال ہی میں متنبہ کیا ہے کہ آزاد معیشتوں کو سی سی پی کی معاشی جاسوسی سے خطرات کا سامنا ہے۔
Attorney General William P. Barr Delivers Remarks on China Policy at the Gerald R. Ford Presidential Museum https://t.co/8VvVN7UPcp pic.twitter.com/5T2CwVSyDG
— Justice Department (@TheJusticeDept) July 16, 2020
جیرالڈ آر فورڈ صدارتی میوزیم میں اپنی تقریر میں بار نے دوسرے ملکوں اور کاروباروں سے غلط فائدہ اٹھانے کے لیے چینی حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور کہا کہ چین اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کو مسابقت اور اظہار کو محدود کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
نظریات کو چرانے کے لیے کمپنیوں کو چین لے جانے کا جھانسہ
بار نے کہا کہ سی سی پی نے غیر ملکی کمپنیوں کو چینی منڈیوں تک رسائی کے وعدوں کا جھانسا دیا۔ تاہم اس کا واحد مقصد اُن کی املاک دانش کی چوری کو ممکن بنانا تھا۔ سی سی پی غیر ملکی کمپنیوں سے چینی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنانے کی شرائط عائد کرتی ہے۔ پھر معلومات کے حصول کے بعد مارکیٹ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیتی ہے۔
بار نے 2010 کے ایک واقعے کا حوالہ دیا جس میں سی سی پی نے جاپان کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے ترسیلی سلسلوں پر اپنے کنٹرول کو استعمال کیا۔ سی سی پی نے بحیرہ مشرقی چین میں علاقے کے تنازعہ کے بعد، صارفین کے لیے الیکٹرانکس اور طبی سامان کی تیاری میں استعمال ہونے والے نایاب مٹی کے مواد کی فروخت روک دی۔
ترقی پذیر ممالک اور غیرملکی کمپنیوں کا استحصال
چینی راہنما بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پر ناجائز اثر و رسوخ حاصل کر لیتے ہیں۔ بار نے اس پروگرام کو ایک ایسا پروگرام قرار دیا جومتعلقہ ممالک پر ناپائیدار قرضوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔ یہ قرضے اُن ممالک کی طویل مدتی ترقی کو ناکام بناتے ہیں جو اِن قرضون کے بالکل متحمل متحمل نہین ہوسکتے۔ یہ صورت حال “جدید دور کی نوآبادیات کی ایک شکل سے کچھ زیادہ ہی بڑھکر ہے۔”
بار نے کہا کہ بیجنگ غیر ملکی کمپنیوں کی وسیع چینی مارکیٹ تک رسائی کو برقرار رکھنے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں پر اپنا سنسر آپ کرنے کی شرط بھی عائد کرتا ہے۔ اس سے اپنی اندرون ملک سخت گیر پالیسیاں، سی سی پی دوسرے ممالک کو برآمد کرسکتی ہے۔
بار نے ٹرمپ انتظامیہ کی چین کی حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “نظریاتی مطابقت پر مجبور کرنے کی سی سی پی کی مہم چین کی سرحدوں پر ہی نہیں رک جاتی ہے۔ بلکہ سی سی پی امریکی سرزمین سمیت دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔