چین کا بین الاقوامی تنظیموں سے غلط فائدہ اٹھانا

جب کورونا وائرس چین کی سرحدوں سے نکل کر دنیا میں پھیلا تو چینی رہنما عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر کامیابی سے اثرانداز ہوئے اور اسے عوامی صحت کی اس ہنگامی صورت حال کو بین الاقوامی تشویش کی حامل صورت حال قرار دینے کا اعلان نہ کرنے دیا۔ جنوری کے اس تباہ کن فیصلے کے فوراً بعد چینی کمیونسٹ پارٹی نے ڈبلیو ایچ او کی ایک ٹیم کو اس عالمی وبا کے منبعے اور چین کے ردعمل کی تحقیقات سے روک دیا۔

2 نومبر کو روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی، “چین نے صحت کی اس تنظیم سے وہ مراعات حاصل کیں جنہوں نے چین کو (اس وبا پر) اہم تحقیق میں دیر کرنے میں مدد کی اور چینی حکومت کو اس وبا کے پھوٹنے کے بعد کے ابتدائی ردعمل کے ممکنہ طور پرشرمسار کرنے والے جائزے سے بچایا۔”

چین نے دنیا کو کورونا وائرس کے بارے میں متنبہ کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ اس کا یہ عمل تو اس بات کی محض ایک مثال ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے چین کے مفادات کو تحفظ اور فروغ دینے کی خاطر بین الااقوامی تنظیموں میں اپنے بڑہتے ہوئے اثرورسوخ کو قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو نئی شکل دینے کے لیے کس طرح  استعمال کیا۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے اداروں میں اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے، سی سی پی نے تائیوان کے ساتھ تعاون کو روکا، جبر کی شکار ویغور اقلیتی کمیونٹی کے ایک نمائندے کو اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت نہیں کرنے دی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی چین کی اُن ففتھ جنریشن (فائیو جی) کمپنیوں کو فروغ دیا جو دوسرے ممالک کے لیے سلامتی کے بہت زیادہ  خطرات کا سبب بنتی ہیں۔

 صحت کی عالمی تنظیم کے علامتی نشان کے نیچے لکھی ہوئی چینی زبان کی تحریر (© Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images)
جنیوا میں صحت کی عالمی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں ڈبلیو ایچ او کاعلامتی نشان جس کے نیچے تنظیم کا نام چینی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ (© Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images)

امریکی وزیر خارجہ، مائیکل آر پومپیو نے اکتوبر 2019 میں متنبہ کیا کہ سی سی پی “اپنے آمرانہ نظام کو جائز ٹھہرانے اور اس کی پہنچ کو بڑہانے کے لیے بین الااقوامی تنظیموں میں شرکت کرتی ہے۔”

31 اکتوبر کو چین، کیوبا اور روس نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اپنی نشستیں برقرار رکھنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔ پومپیو نے کونسل میں اِن ممالک کی نشستوں کو “ظالموں کی جیت” اور “اقوام متحدہ کے لیے شرمساری” قرار دیا۔

بین الاقوامی تنظیموں میں بیجنگ کے اثرو رسوخ میں بھی اسی طرح اضافہ ہو رہا ہے۔ سی سی پی کے عہدیدار اقوام متحدہ کے 15 مخصوص اداروں میں سے جن چار اداروں کی سربراہی کر رہے ہیں اُن میں اقوام متحدہ کی صنعتی ترقی کی تنظیم اور بین الااقوامی مواصلاتی یونیں بھی شامل ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ عہدے حاصل کرنے کے لیے بیجنگ نے دوسرے ممالک میں اثرونفوذ حاصل کرنے کی خاطر نقصان دہ قرضے دینے پر منحصر اپنے ترقیاتی طریقہائے کار کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ مثال کے طور پر روزنامہ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق  جب چین نے افریقی ملک، کیمرون کے ذمے واجب الادا 78 ملین ڈالر کا قرض معاف کیا تو    اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی تنظیم کے سربراہ کا انتخاب لڑنے والا کیمرون کا امیدوار مقابلے سے اچانک  دستبردار ہو گیا۔

اسی انتخاب میں، بیجنگ نے ووٹ کے بدلے یوگنڈا میں 25 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ وال سٹریٹ جرنل نے اطلاع  دی کہ چینی مندوبین نے یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ اِن ممالک نے اسی طریقے سے ووٹ دیئے جیسے کہ چین چاہتا تھا، خفیہ طریقے سے ویڈیو فلم بنائی۔

ٹویٹ:

محکمہ خارجہ

وزیر خارجہ پومپیو: چینی کمیونسٹ پارٹی سے حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ہم عالمی سطح پر چین کے ساتھ اسی طرح کام کرنا چاہتے ہیں جیسے کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

سی سی پی کے عہدیداروں کی اقوام متحدہ کے مخصوص اداروں کے سربراہوں کی تعداد سے ہی صرف قانون پر مبنی بین الااقوامی نظام کو مسائل درپیش نہیں ہیں۔ بلکہ سی سی پی کے عہدیدار اپنی اِن حیثیتوں کو تنظیم کے مفادات کی بجائے  پارٹی کی ترجیحات کو فروغ  دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق شہری ہوابازی کی بین الاقوامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل، فینگ لیو نے چینی حکومت سے جڑے ایک گروپ کی طرف سے سائبر سکیورٹی کے حملے کی تفتیش کرنے کی سفارشات کو سرد خانے میں ڈال دیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے  امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری، ڈیوڈ سٹِل ول نے اپنی 30 اکتوبر کی تقریر میں کہا کہ قانون پر مبنی ایک ایسے نظام پر عمل کرنے کی بجائے جو خود مختار ممالک کے مابین تنازعات کے پرامن حل کو ممکن بنائے، سی سی پی  “دنیا کے لیے نئے قانون بنانا چاہتی ہے۔”