امریکہ کا قانون نافذ کرنے والا چوٹی کا عہدیدار چینی کمیونسٹ پارٹی کی جاسوسی سے پیدا ہونے والے آزاد معاشروں کو درپیش خطرات کے بارے میں متنبہ کر رہا ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس چوری سے امریکی معاشی اور قومی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا طویل مدتی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
7 جولائی کو واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے معلومات اور دانشورانہ املاک چوری کرنے کے سی سی پی کے “وسیع چلن” کو تفصیل سے بیان کیا۔ اِن طریقوں میں ریاستی سرپرستی میں کمپیوٹر ہیکنگ سے لے کر محققین پر ڈیٹا چوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے اور چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو قانونی طور پر سی سی پی کو ڈیٹا مہیا کرنے کا پابند بنانا شامل ہے۔
رے نے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کو بتایا، “بنیادی طور پر چین کا نظام ہمارے نظام سے مختلف ہے۔ اور وہ اپنے بند نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے کھلے پن کا استحصال کرنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو وہ کر سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ چینی حکومت کی امریکی دانشورانہ املاک کی چوری کا نتیجہ انسانی تاریخ میں دولت کی سب سے بڑی منتقلیوں میں شمار ہونے والی ایک منتقلی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کا یہ انتباہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور دوسرے ممالک سی سی پی سے دانشورانہ املاک کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے مئی میں ایک اعلان جاری کیا جس کا مقصد سی سی پی کو روکنا ہے تاکہ وہ اپنی فوج کی مدد کے لیے تحقیق چوری کرنے کی خاطر امریکی ویزوں کا غلط استعمال نہ کر سکے۔
چین کی پانچویں نسل (فائیو جی) سے متعلق ہوا وے جیسی وائرلیس ٹکنالوجی کی کمپنیوں کے آلات استعمال کرنے سے جڑے ناقابل قبول خطرات کے بارے میں عالمی اتفاق رائے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رے نے کہا کہ سی سی پی برابر کی شرائط پر امریکہ کے کھلے نظام کی مسابقت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ کسی بھی طرح سے دنیا کی واحد سپر پاور بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی سی پی کے چوری اور زبردستی کے طریقوں میں مندرجہ ذیل اقدامات شامل ہیں:-
- معلومات تک رسائی کے لیے کمپنیوں اور حکومتوں کی ہیکنگ۔
- ٹکنالوجی اور صنعتی راز چوری کرنے کے لیےمحققین کو پیسے دینے۔
- مخالف رائے اور صحافیوں کو سنسر کرنا۔
- چین کے اندر اور چین سے باہر منحرفین اور اُن کے خاندانوں کو ڈرانا دھمکانا۔
قانون نافذ کرنے والے امریکی (اہلکار) غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اِن جرائم کے ذمہ دار لوگوں کی گرفتاری پر کام کر رہے ہیں۔ رے نے کہا کہ وفاق کے سرکاری وکلاء نے ہواوے پر دھوکہ دہی کی سازش کی فرد جرم عائد کی ہے جس میں اُس پر امریکی کمپنیوں سے دانشورانہ املاک کی بار بار چوری کا الزام بھی شامل ہے۔
رے نے کہا کہ چین سے جڑے معاشی جاسوسی کے واقعات میں گزشتہ دہائی میں لگ بھگ 1,300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رے نے بتایا کہ ایف بی آئی میں امریکی ٹیکنالوجی کی ممکنہ چوری کی ایک ہزار سے زیادہ تحقیقات چل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ چینی جاسوسی کے توڑ کی تقریباً ایک ہزار تحقیقات پر بھی کام ہو رہا ہے۔
تاہم انہوں نے چین کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی خلاف ورزیوں اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے لوگوں کے لیے سر انجام دی جانے والی چینی عوام کی قابل قدر خدمات کے فرق کو واضح کیا۔
رے نے کہا، “اس خطرے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں چینیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ جب چین ہمارے تعزیری قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔”