عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) زہریلی گیسوں اور پارے کے سالانہ اخراجوں میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ زہریلی فضائی آلودگی چینی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کی صحت اور عالمی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
طبی جریدے دا لانسیٹ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق 2017ء میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پی آر سی میں اندازاً 1.24 افراد ہلاک ہوئے۔ جریدے نیو سائنٹسٹ کے مطابق 2000ء سے لے کر آج تک فضائی آلودگی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 30 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے اگست میں کہا، “چینی کمیونسٹ پارٹی نے معیشت کے ایک بڑے حصے کی بنیاد رکھتے ہوئے جان بوجھ کر ہوا، زمین، اور پانی کے معیاروں کو نظرانداز کیا۔ چینی عوام — اور ہاں پوری دنیا — اس سے بہتر کے مستحق ہیں۔”
2006ء سے لے کر آج تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ زہریلی گیسیں خارج کرنے والا ملک بدستور عوامی جمہوریہ چین چلا آ رہا ہے اور آج بھی اس کے اخراجوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے مطابق 2005 اور 2009 کے درمیان توانائی سے متعلق پی آر سی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراجوں میں 80 فیصد اضافہ ہواجبکہ اسی مدت کے دوران توانائی سے متعلق امریکی اخراجوں میں 15 فیصد کمی آئی۔
اگرچہ پی آر سی کے صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں سال 2060 تک کاربن کے اخراجوں اور کاربن کو جذب کرنے کی مقدار کو برابر کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر انہوں نے یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ یہ مقصد کس طرح حاصل کریں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے نئے پلانٹوں کی تعمیر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے پلانٹ ہوا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتے ہیں۔
The Chinese Communist Party’s continued destruction of the environment threatens the global economy and global health, but has the worst impact on its own people. The world deserves better. https://t.co/pQjSSHMGr3
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) November 4, 2020
وزیر خارجہ پومپیو
گو کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے تسلسل کے ساتھ ماحول کی تباہی سے عالمی معیشت اور دنیا کے لوگوں کی صحت کو خطرات کا سامنا ہے مگر اس کے بدترین اثرات چین کے اپنے عوام پر پڑ رہے ہیں۔ دنیا اس سے بہتر کی مستحق ہے۔
بیجنگ دنیا میں سب سے زیادہ پارے کے اخراج کرنے والا ملک بھی ہے۔ پارہ اعصابی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ماحولیاتی ڈیٹا میں عوام کو شامل کرنے کے نتیجے میں ہوا کے معیار میں دیرپا بہتریاں آ سکتی ہیں۔ تاہم، پریس کی آزادیوں پر پابندیوں سمیت، سی سی پی کے اندرون ملک جبر سے ایسی تبدیلیوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے جن سے اخراجوں میں کمی آ سکتی ہو اور ماحول کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔
بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے 2008ء میں بیجنگ شہر میں ہوا کے معیار کو جانچنا شروع کیا۔ سفارت خانے کی جانب سے عوام کو ڈیٹا میں شریک کرنے، اور ماحولیاتی تحفظ کے امریکی ادارے کے ساتھ سائنسی تبادلوں نے چین کو ہوا کے معیار کو جانچنے کے معیارات کو مضبوط بنانے اور انہیں بہتر بنانے کی ترغیت دی۔
اب دنیا بھر کے 70 سے زائد شہروں میں واقع امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے فضائی آلودگی کی نگرانی کرتے ہیں اور زیف ایئر نامی موبائل ایپ کے ذریعے ہوا کے معیار کے ڈیٹا کو فوری طور پر براہ راست عام آدمی تک پہنچاتے ہیں۔ محکمہ خارجہ کی طرف سے حال ہی میں شروع کیا جانے والا یہ ایپ، ہوا کے معیار کے بارے میں قابل اعتبار معلومات فراہم کرتا ہے اور دنیا بھر میں موت کی ایک بڑی وجہ بننے والی فضائی آلودگی سے عوام کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے قابل بناتا ہے۔