ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کا غیرشفاف، کھربوں ڈالر کا بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر پر مرکوز ‘ون روڈ ون بیلٹ’ منصوبہ، حیاتیاتی مسکنوں کو برباد کر رہا ہے اور حیاتیاتی انواع کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں پی آر سی کے صدر، شی جن پھنگ کی ذہنی اختراع ہے۔ اس کا ظاہری مقصد، کم و بیش 130 ممالک میں ریلوے کے نیٹ ورکوں، توانائی کی پائپ لائنوں، شاہراہوں اور سرحدیں عبور کرنے والے مقامات کی تعمیر ہے۔ بہت سے پراجیکٹوں پر پہلے ہی سے کام ہو رہا ہے اور 2049ء میں اِس منصوبے کی تعمیر کے مکمل کیے جانے کا پروگرام ہے۔
ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ “سرمایہ کاریاں” ماحولیات کے بنیادی معیاروں پر پورا اترنے میں ناکام ہوں گیں اور ہمیں اس کی قیمت بیجنگ کے اس منصوبے کے پراجیکٹوں کے “جنگلی جانداروں اور ماحولیات کے تحفظ کے مضبوط کرنے اور اور صحت مند ماحولیاتی نظام کی تعمیر کے تعاون کو مضبوط کرنے” کے دعووں کے باوجود عالمی حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصانات کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ سڑکیں، بجلی گھروں کے پلانٹ، بندر گاہیں، ہوائی اڈے، پل اور ریلوے لائنیں نازک ماحولیات اور جنگلی حیات والے علاقوں میں تعمیر کی جائیں گی اور ان علاقوں کے بیچ میں سے گزریں گیں۔ ایسا بالخصوص استوائی خطوں میں ہوگا جس کی ایک مثال جزیرہ نما انڈونیشیا ہے۔
ولیم لارنس نارتھ کوئنز لینڈ، آسٹریلیا کی جیمز کک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور یونیورسٹی کے استوائی، ماحولیاتی، اور پائیداری کی سائنسوں کے مرکز کے ڈائریکٹر ہیں۔ پروفیسر لارنس کہتے ہیں، “بہت سی جاندار جنگلی انواع کے لیے یہ (منصوبہ) نیزے کی انی ہے۔ یہ منصوبہ حیاتیاتی مسکنوں کی حیران کن بربادی اور انحطاط اور تباہی ہے۔”
حیاتیاتی مسکن کو لاحق خطرات
انڈونیشیائی جزیرے، شمالی سماٹرا میں پن بجلی کے ڈیم کے منصوبے سے ٹاپانولی اورنگو ٹان نامی بن مانس کی نسل کے رہائشی علاقے کو خطرات لاحق ہیں۔ پوری دنیا میں اس نسل کے 800 سے بھی کم بن مانس پائے جاتے ہیں۔ پن بجلی کے پلانٹ کے لیے تعمیر کیے جانے والے اس ڈیم کی مالی مدد بنک آف چائنا کر رہا ہے۔ اس ڈیم سے باٹانگ ٹورو جنگل جہاں یہ نایاب بن مانس رہتے ہیں زیر آب آ جائے گا۔ پروفیسر لارنس کے مطابق اس پراجیکٹ کے لیے تعمیر کی جانے والی سڑکوں سے اس استوائی جنگل کو بھی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایشیا اور بحرالکاہل کے خطوں کو انواع کے حیرت انگیز تنوع اور بہت بڑی تعداد کی ایسی انواع کا مسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو انتہائی نایاب اور خطرات کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “آپ جہاں کہیں بھی دیکھتے ہیں آپ کو ہر جگہ بیلٹ اور روڈ کے جاری پراجیکٹ نظر آتے ہیں اور پوری دنیا اس (منصوبے) کی زد میں ہے۔”
لارنس نے کہا کہ پی آر سی “دوسروں کی پرواہ کیے بغیر خودغرضانہ” طور پر بحیرہ جنوبی چین سے جنوبی بحرالکاہل اور لاطینی امریکہ تک اپنے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ “آج کل، [پی آر سی کی] افریقہ میں سرمایہ کاریوں کی بڑی بڑی سرگرمیاں جاری ہیں اور اِن [سرگرمیوں] کا رخ آرکٹک کے خطے کی طرف مڑتا جا رہا ہے۔”

انگلینڈ کی لنکن یونیورسٹی کے پانی اور ارضی صحت کے مرکز کے سینیئر لیکچرر، ایلکس لیخنر نے بتایا، “استوائی جنگل زمین کے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ اِن محفوظ علاقوں میں کسی بھی تبدیلی کا انسان پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑتا ہے۔ ہم حیران کن حیاتیاتی تنوع کے ساتھ ساتھ اسے آنے والی نسلوں کو [منتقل کرنے کے] مواقع بھی کھو رہے ہیں۔”
ایلس سی ہیوز چینی اکیڈمی آف سائنسز کے شی شونگ بانا ٹراپیکل بوٹینیکل گارڈن میں پروفیسر ہیں۔ جریدے کنزرویشن بیالوجی کے ایک حالیہ مضمون میں پروفیسر ہیوز اور اُن کے رفقا نے ون بیلٹ ون روڈ کے مجوزہ منصوبے کے راستوں کے ماڈل تیار کیے اور پیشین گوئی کی کہ اِن سے جانوروں کی 4,138 اور پودوں کی 7,37 انواع کو نقصان پہنچے گا۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں میں مجوزہ ریلوے لائنیں متنوع ممالیہ جانوروں کے مسکنوں میں سے گزریں گیں۔
ہیوز نے کہا، “کیونکہ بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت آنے والے بہت سے علاقوں میں ماضی میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے اس لیے حیاتیاتی تنوع پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔”
لیخنر نے کہا، “مسئلہ صرف سڑک یا ریلوے لائن کا ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پیدا ہونے والے اُن ذیلی اثرات سے بھی مسائل پیدا ہوں گے جو سڑکوں کی وجہ سے ہونے والی نئی ترقی کے نتیجے میں سامنے آئیں گے۔ اِن کی تعمیر کے بعد ہم (ماحول کے حوالے سے) سابقہ حالات میں واپس نہیں جا سکیں گے۔”
ماحولیاتی تحفظ کا منصوبہ
لیخنر نے کہا کسی بھی پراجیکٹ کے ابتدائی مراحل میں ایسے منصوبوں کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جن کے تحت ماحولیاتی تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہو۔ لیخنر کہتے ہیں، “منصوبہ ساز رک کر یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ ‘کیا بنیادی طور پر اِن ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت بھی ہے؟’ کیونکہ اِن علاقوں کو محفوظ رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ اگر پراجیکٹوں پر کام شروع کرنا ہی ہے تو منصوبوں سے درپیش خطرات کو کم از کم سطح پر لایا جانا چاہیے۔ ” اگر آپ پل بنائیں گے تو جنگلی حیات پل کے نیچے چلی جائے گی۔ اگر آپ سرنگ بنائیں گے تو وہ زمین کے اوپر رہے گی۔ اسی طرح آپ جنگلی حیات کے لیے بھی پل بنا سکتے ہیں۔ اگر ان کے اچھے ڈیزائن تیار کیے جائیں تو نقصان دہ اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی ڈرہم، شمالی کیرولائنا کے انوائرنمنٹل سولیوشنز کی سینیئر فیلو، ایلزبتھ لوسوس نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی کا شکار بیلٹ اینڈ روڈ کے بعض پراجیکٹ حیاتیاتی تنوع کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اُن کے مطابق تعمیر کی ناقص منصوبہ سازی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور “جب [ایسے منصوبوں] کے ماحولیات کے حوالے سے جائزے لیے جاتے ہیں تو اکثر اِنہیں روکنے میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔”
بین الاقوامی دریاؤں اور قدرتی وسائل کے دفاع کی کونسل جیسی تنظیموں کی طرف سے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹوں میں زیادہ سے زیادہ ماحولیاتی [تحفظ کے طریقے اختیار کرنے] کی حمایت کی جا رہی ہے اور ایسی تنظیموں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔
لوسوس نے بتایا کہ بہت سے پراجیکٹوں میں ابھی بھی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ عالمی وبا کی وجہ سے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کی رفتار سست پڑ چکی ہے اور اس سے دنیا کے ممالک کو سوچ و بچار کرنے کا وقت مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا، “اس وقت ایک بہت بڑا موقع ہاتھ لگا ہے۔”
لوسوس نے بتایا، “بیلٹ اینڈ روڈ کی رفتار بہت سست ہو گئی ہے۔ یہ اب جس طرح تیز ہوگی اس کا حیاتیاتی تنوع پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔”