اٹھارویں صدی کا بوسٹن کی بندرگاہ پر آنے والے جہازوں کا ایک تصویری خاکہ (Library of Congress)
1730 اور 1760 کے درمیان بنائی گئی اس تصویرمیں اُس زمانے میں بوسٹن کے علاقے میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کو دکھایا گیا ہے جب بحری جہاز پر آنے والے چیچک کے مریضوں کو بوسٹن بندرگاہ کے ایک جزیرے پر الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔ (Library of Congress)

اٹھارویں صدی کے اوائل میں امریکی نوآبادیات کو سرخ رنگ کے بخار، خناق، انفلوئنزا اور زرد بخار جیسی مہلک متعدی بیماریوں کے مسلسل خطرات کا سامنا رہتا تھا۔

سب سے زیادہ خوفناک بیماری چیچک تھی۔ یہ بیماری خطرناک طور پر متعدی تھی اور اس سے بخار، تھکاوٹ اور پورے جسم پر بننے والے دھبوں کی وجہ سے بدنما داغ رہ جاتے تھے۔ چیچک سے ہونے والی اموات کی شرح 30%  تھی۔

22 اپریل 1721 کو ایچ ایم ایس سی ہاؤس نامی ایک برطانوی بحری جہاز مہلک چیچک کو لے کر باربیڈوس سے بوسٹن کے لیے روانہ ہوا۔ ملاحوں کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے باوجود یہ وائرس پورے بوسٹن میں پھیل گیا جس سے شہر کی تقریباً 15 فیصد آبادی موت کا شکار ہو گئی۔ اگر غلام بنائے گئے افریقی ایک بنیادی عمل کے اپنے اُس علم کے بارے میں نہ بتاتے جس کی وجہ سے چیچک کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے تو بوسٹن کے رہائیشیوں کی اس سے کہیں بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹورل ہسٹری فیلو، ایلیس مچل نے بتایا، “1721 میں چیچک کا پھیلنا مغربی ادویات پر افریقی اثرات کی ایک ابتدائی مثال ہے۔”

بوسٹن کے ایک ممتاز مذہبی رہنما کاٹن میدر کو اس تکنیک کے بارے میں ایک نوجوان سے پتہ چلا جسے انہوں نے غلام بنایا ہوا تھا اور جسے وہ ونسائمس کے نام سے بلاتے تھے۔ میدر نے بوسٹن کے 300 رہائشیوں پر چیچک کا ٹیکہ لگوانے کا زور دیا۔ یہ پہلی ایسی کوشش تھی جس کا دستاویزی ریکارڈ ملتا ہے۔ میدر، ونسائمس کو جسے ممکنہ طور پر افریقہ کے اس حصے سے لایا گیا تھا جو اب گھانا ہے، ایک “ذہین آدمی” کہتا تھا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے افریقی اور افریقی نژاد امریکیوں کے تحقیقی مرکز، ہچنس کے سٹیون جے نیون کہتے ہیں، “ونسائمس کی کہانی اہم ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے  … جہاں ایک غلام اپنے ارد گرد تاریخ رقم کر رہا تھا۔ زندگیاں بچانے پر اس کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔”

 چیچک کے بارے میں 1726 میں شائع ہونے والی کتاب کا سرورق (© MPI/Getty Images)
ڈاکٹر زبڈیل بوئلسٹن نے “نیو انگلینڈ میں چیچک کے حفاظتی ٹیکوں کے تاریخی ریکارڈ” کے عنوان سے اس وبا کے خلاف لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کے انتظام اور نتائج کو کتابی شکل میں شائع کیا۔ (© MPI/Getty Images)

ٹیکہ لگاتے وقت کسی متاثرہ شخص کے چیچک کے چھالے سے پیپ نکال کر اسے کسی صحت مند شخص کی جلد پر کٹ لگا کر یا سوئی چبھو کر اس کے جسم میں داخل کیا جاتا تھا۔ ایسا کرنا، تھا تو خطرناک کیونکہ یہ کسی ایسے شخص میں شدید بیماری اور موت کا سبب بن سکتا تھا جو صحت مند تھا۔ مگر حقیقت میں اس سے معمولی سی چیچک کی تکلیف ہونے کے باوجود مستقبل میں وبا کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی تھی۔ صدیوں سے ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں یہ طریقہ استعمال ہوتا رہا۔ ونسائمس سمیت بہت سے غلام بنائے گئے لوگوں کو امریکہ لے جانے سے پہلے اس طرح کے ٹیکے لگائے جاتے تھے۔

میدر نے ایک گفتگو کے بارے میں لکھا ہے جس کے دوران انہوں نے ونسائمس سے پوچھا کہ کیا اسے کبھی چیچک کی بیماری ہوئی ہے۔ ونسائمس نے جواب دیا: “ہاں اور نہیں۔” اس نے [میدر] کو بتایا، “اس کا آپریشن ہوا تھا جس کے دوران [اسے] چیچک جیسی کوئی چیز دی گئی تھی۔ لہذا وہ ہمیشہ کے لیے اِس [چیچک] سے محفوظ ہو گیا ہے۔” اس نے کہا کہ یہ “کورمینٹی” میں عام سی بات ہے۔” ونسائمس نے ثبوت کے طور پر اپنے بازو پر زخم کا ایک نشان بھی دکھایا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مغربی افریقہ کو کورمینٹی کہا جاتا تھا۔

خوش کن حیرت میں مبتلا میدر نے غلام بنائے گئے دیگر لوگوں کا انٹرویو کیا اور سب نے ایک ہی جیسی کہانی سنائی۔

تاہم یہ عمل متنازعہ تھا۔ جب 1721 میں ایچ ایم ایس سی ہارس نامی بحری جہاز کے ذریعے چیچک کی وباء بوسٹن پہنچی تو میدر نے بوسٹن والوں کو ٹیکہ لگوانے کی تاکید کی۔ ڈاکٹر زبڈیل بوئلسٹن واحد ایسے ڈاکٹر تھے جو اس طریقہ کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ (انہوں نے سب سے پہلے یہ طریقہ علاج اپنے 6 سالہ بیٹے اور دو غلاموں پر آزمایا۔)

شدید عوامی تنقید کے ماحول کے باوجود میدر اور بوئلسٹن نے بوسٹن کے287 رہائشیوں کو ٹیکہ لگانے کے لیے راضی کیا۔ میدر نے نتائج کی اطلاع دنیا کی ایک قدیم ترین سائنسی سوسائٹی یعنی لندن کی رائل سوسائٹی کو دی۔

نیوین نے بتایا اس کا ثبوت یہ حقیقت تھی کہ “بوسٹن کے جن رہائشیوں کو ٹیکے نہیں لگے تھے، اُن کے مرنے کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ تھے جنہیں ٹیکے لگ چکے تھے۔” چونکہ میدر کے پاس غلام لوگوں کی کہانیوں کے حق میں اعداد و شمار موجود تھے، اس لیے امریکہ کی کالونیوں میں ٹیکے لگوانے کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ پچاس سال بعد جارج واشنگٹن نے اپنے سپاہیوں کے لیے یہ ٹیکے لگانے لازمی قرار دیئے اور بہت سے مورخین نوآباد کاروں کی انقلابی جنگ جیتنے کا سہرا اس پالیسی کے سر باندھتے ہیں۔

 ایک آدمی بچے کو ٹیکہ لگا رہا ہے اور دوسرے لوگ کھڑے دیکھ رہے ہیں (© Bettmann/Getty Images)
انگریز ڈاکٹر ایڈورڈ جینر کے 1796 میں چیچک کے پہلے حفاظتی ٹیکہ لگانے کا تصویری خاکہ (© Bettmann/Getty Images)

بوسٹن میں کی جانے والی محنت نے 1796 میں ایڈورڈ جینر کی تیار کی گئی چیچک کی محفوظ ویکسین کی بنیاد رکھی۔ تقریباً دو صدیوں بعد 1980 میں، عالمگیر حفاظتی ٹیکوں کی کاوشوں سے دنیا میں چیچک کا خاتمہ کر دیا گیا۔

ونسائمس نے میدر سے اپنی آزادی پیسے دے کر خریدی۔ تاہم مورخین کے پاس اِس کے بعد کی اُس کی زندگی کا کوئی ریکارڈموجود  نہیں۔ اس کے باوجود وہ ابتدائی امریکی تاریخ پر ایک غیرمعمولی اثر و رسوخ  اور لاتعداد زندگیاں بچانے والی شخصیت کے طور پر آج بھی زندہ  ہے ۔.

فری لانس مصنف بارا ویدا نے یہ مضمون لکھا۔