ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کے لاس ویگاس اور پیرس میں تجربات

لاس ویگاس میں تجرباتی بنیادوں پر چلائی جانے والی ایک خودکار برقی مسافر بس۔ (© AP Images)

دنیا بھر میں شہروں کی ایک روزافزوں تعداد ڈرائیور کے بغیر چلنے والی خودکار گاڑیوں کے عام سڑکوں پر استعمال کے تجربات کر  رہی ہے۔

ان تجربات میں حال ہی میں شامل ہونے والے دو شہر، لاس ویگاس اور پیرس ہیں۔

ان دونوں شہروں نے بجلی سے چلنے والی خودکار بسوں کا استعمال شروع کیا ہے تاکہ مسافروں کو مختصر فاصلے پر واقع مقامات تک لے جایا جائے اور ان کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے۔

لاس ویگاس

Driverless shuttle bus in Las Vegas (© AP Images)
لاس ویگاس کی ایک سڑک پر خودکار برقی مسافر بس کو تجربے کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ (© AP Images)

حال ہی میں لاس ویگاس شہر نے امریکہ کی پہلی خودکار شٹل مسافر بس کا اجراء کیا ہے۔

اس خودکار بس کا نہ ‘سٹیئرنگ’ ہے اور نہ ‘بریک پیڈل’ ہے۔ یہ بس شہر کی مصروف شاہراہوں پر چلتے ہوئے لوگوں اور دوسری گاڑیوں سے تصادم سے بچنے کے لئے کیمرے اور سینسر استعمال کرتی ہے۔

فرانسیسی ادارے ‘نیویا’ کی تیار کردہ بارہ مسافروں کو لے کر جانے والی اس بس کو لاس ویگاس کے مصروف ترین تفریحی علاقوں میں شمار ہونے والے ایک علاقے میں دو ہفتوں کے لیے چلایا گیا۔  شٹل بس کے اس تجربے کے دوران  مسافروں نے بس میں مفت سفر کیا۔

لاس ویگاس کی میئر، کیرولائن گُڈ مین نے اس بس میں سواری کرنے کے بعد کہا کہ،”سفر عمدہ تھا۔ آلودگی سے پاک اس بس کی نشستیں آرام دہ ہیں۔”

Driverless bus (NAVYA)
خودکار مسافر بس کی رفتار 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک جا سکتی ہے۔ (NAVYA)

شہر کے بڑے بڑے علاقوں سے مسافروں کو لانے لے جانے کی خاطر، لاس ویگاس میں 2017ء میں کئی ایک خودکار مسافر بسوں کا سلسلہ شروع ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

اس منصوبے پر ہر ماہ تقریباً دس ہزار ڈالر لاگت آئے گی۔ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ رقم زیادہ معلوم ہوتی ہے تاہم اِن خودکار مسافر بسوں سے شہر کو پیسوں کی بچت ہو گی۔ اس وقت ایک روائتی بس اور اس کے ڈرائیور اور دیگر عملے پر سالانہ دس لاکھ ڈالر کا خرچہ آتا ہے۔

پیرس

Electric bus in Paris (© AP Images)
بجلی سے چلنے والی پیرس کی خودکار بسوں میں دس مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ (© AP Images)

آج کل پیرس میں، دو بسیں اس شہر کے دو مصروف ترین ریلوے سٹیشنوں کے درمیان سفر کرنے والے مسافروں کو ایک پل کے آر پار لے جا رہی ہیں۔

ایک فرانسیسی کمپنی، ‘ایزی مائل” کی تیار کردہ یہ بسیں اُن لینوں میں چلیں گی جو ان کے لیے خصوصی طور پر بنائی گئی ہیں۔ بجلی سے چلنے والی ان بسوں میں دس مسافر سفر کر سکتے ہیں۔

پیرس میں یہ تجرباتی سلسلہ تین ماہ تک چلنے کی توقع ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو انتظامیہ کا 2017 ء کے اواخر میں مزید خودکار بسوں کو چلانے کا منصوبہ ہے۔

جین- لوئی میسیکا، پیرس کے نائب مئیر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں خودکار گاڑیوں کو متعارف کروانے کی ایک تقریب میں رپورٹروں کو بتایا کہ یہ گاڑیاں دنیا کے مختلف شہروں میں آنے والے ایک “انقلاب” کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خودکار گاڑیوں کی یہ ٹکنالوجی، “ہمارے شہری ماحول اور عوامی مقامات کو اگلے بیس برس میں شاندار انداز سے تبدیل کر کے رکھ دے گی۔”