امریکہ کے ووٹروں نے ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ  جے ٹرمپ کو ملک کا پینتالیسواں صدر منتخب کر کے ایک ایسے کاروباری شخص کو وہائٹ ہاؤس میں پہنچا دیا ہے جس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی مالیاتی سمجھ بوجھ کو استعمال میں لاتے ہوئے امریکی شہریوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔

جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبارسے وابستہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدمقابل سابق وزیرِ خارجہ، ہلری کلنٹن تھیں جنہیں امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کی امید تھی۔

9 نومبر 2016 کی صبح اپنی فتح کو قبول کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا،”میرا ملک بھر کے تمام ری پبلکنوں، ڈیموکریٹوں اور آزاد افراد سے یہ کہنا ہے کہ ہمارے لیے ایک متحدہ  قوم کے طور پر اکٹھا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ … میں ملک کے ہر شہری سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمام امریکیوں کے صدر کی حیثیت سے کام کروں گا۔”

کاروباری تجربے کا حامل صدر

ٹرمپ، جن کا نام دنیا بھر میں اعلیٰ معیار کے ہوٹلوں، بلند عمارتوں اور گولف کورسوں پر آویزاں ہے، ان کاروباری افراد کی راہ پر چل کر آئے ہیں جو ملک کے اس اعلٰی ترین سیاسی منصب پر فائز ہوئے۔ ان میں جارج ڈبلیو بش شامل ہیں جو اپنے والد جارج ایچ  ڈبلیو بش کی طرح تیل کے کاروبار سے منسلک ہونے کے علاوہ بیس بال کی ایک بڑی ٹیم کے مالک بھی تھے۔

دیگر مثالوں میں جمی کارٹر ہیں جو مونگ پھلی کے کاشتکار تھے، ہربرٹ ہوور ہیں جو کان کنی کے انجنیئر تھے، اور وارن ہارڈنگ ہیں جو ایک اخبار کے ناشر تھے۔

لیکن صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے پہلے ان سب کاروباری حضرات نے سیاست میں حصہ لیا۔ ٹرمپ پہلے شخص ہیں جو اپنے کاروباری دفتر سے سیدھا اوول آفس پہنچے ہیں۔

سابق مصنف اور ٹی وی کی معروف شخصیت، ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اپنے کاروباری پس منظر کا بار بار ذکر کرتے ہوئے کہا،” ہمیں واشنگٹن میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو کاروباری سودے طے کرنا جانتے ہوں۔”

ٹرمپ نے ایک ایسی غیر روائتی انتخابی مہم چلائی جس کا سوشل میڈیا پر بہت زیادہ انحصار تھا۔ وہ ٹوئٹرکے ذریعے اکثر اور براہِ راست اپنے فالوورز سے رابطے میں رہے جن کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔

ہلری کلنٹن کی تاریخی کاوش کا اختتام

ٹرمپ کی کامیابی نے بہت سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہلری کلنٹن کا شمار امریکہ کے مکمل ترین تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے والے صدارتی امیدواروں میں کیا جارہا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے لیے وہ اجنبی نہیں تھیں کیوں کہ انہوں نے اپنے شوہر اور سابق صدر بل کلنٹن کے ہمراہ خاتونِ اول کے طور پر وہاں آٹھ سال گزارے تھے۔ جب ان کے شوہر کی مدتِ صدارت ختم ہوئی تو وہ 2000ء میں سینیٹر منتخب ہوگئیں۔ وہ واحد خاتونِ اول ہیں جنہیں منتخب عوامی نمائندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

انہوں نے صدر اوباما کے عہد صدارت میں 2009ء سے 2013ء  تک وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے، 112 ممالک کے دورے کیے اور 2016 میں انہیں امریکہ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے پہلی خاتون صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔

ہلری کلنٹن اور صدر اوباما، دونوں نے اقتدار کی پُرامن منتقلی کے ذریعے ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے اور امریکہ کو زیادہ مضبوط بنانے کا عہد کیا۔

ہلری کلنٹن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ ” تمام امریکیوں کے لیے ایک کامیاب صدر ثابت ہوں گے۔”

وائٹ ہاؤس سے ایک خطاب کے دوران صدر اوباما نے تسلیم کیا کہ “یہ کوئی راز کی بات نہیں  ہے کہ نومنتخب صدر اور میرے درمیان بعض واضح اختلافات موجود ہیں” لیکن انھوں نے مزید کہا کہ “ہم سب لوگ وہی چاہتے ہیں جو امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔”