امریکہ کی کہانی ان تارکینِ وطن کی کہانی ہے جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے مواقعوں بھری اس سرزمین پر آئے۔ یہ گوگل کے بانی سرجی برِن اور مشہور کاروباری شخصیت ایلون مسک کی کہانی ہے۔ اسی طرح یہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے خاندان کی کہانی بھی ہے۔
ٹرمپ کے نام کے مشہور ہونے سے بہت پہلے، ان کی کامیابی کی کہانی کا آغاز 130 برس قبل اس وقت ہوا جب فریڈرک ٹرمپ16 برس کی عمر میں اپنے آبائی وطن جرمنی کو خیرباد کہہ کر نیویارک کے راستے امریکہ آئے۔
ٹرمپ کی سوانح نگار گوینڈا بلیئر نے جرمن نیوز ایجنسی ڈوچ ویلے کو بتایا، “جس ڈونلڈ ٹرمپ کو ہم آج جانتے ہیں، ان کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ ان کے دادا شراب بنانے کے پیشے کو اپنانا نہیں چاہتے تھے۔” ان کا اشارہ جرمنی کے شہر کالسٹاٹ میں فریڈرک ٹرمپ کے شراب بنانے کے خاندانی کاوربار سے تعلق توڑنے کی طرف ہے۔
اپنی 2004 کی کتاب، Trump: Think Like a Billionaire [ٹرمپ: ایک ارب پتی کی طرح سوچیے] میں ٹرمپ نے لکھا ہے کہ والد کی طرف سے ان کا نسب 1608ء تک ایک جرمن وکیل ہینز ڈرمپف سے ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، “میرے اجداد میں سے ایک فرد نے، جو شراب سازی کے لیے انگوروں کی کاشت کیا کرتا تھا، 1600 کی دہائی کے آخر میں خاندانی نام تبدیل کر کے ٹرمپ نام اختیار کر لیا۔ میرے خیال میں یہ بڑا اچھا اقدام تھا، کیوںکہ ڈرمپف ٹاورز کوئی اتنا پُر کشش نہیں لگتا۔”

شروع میں فریڈرک ٹرمپ نے مین ہیٹن کی لوئر ایسٹ سائڈ میں ایک حجام کے طور پر کام کیا اور پھر وہ اپنی تمام جمع پونجی لے کر، 21 سال کی عمر میں سی ایٹل منتقل ہوگئے۔ جب وہ 30 سال کے تھے تو انھوں نے کلونڈائک کے علاقے میں سونے کی تلاش کے دور میں کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں آرکٹک ریستوران اور ہوٹل کھولا۔ بعد میں وہ نیویارک واپس آگئے جہاں انھوں نے ہوٹلوں کو چلایا اور جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد، فریڈ نے1918ء میں اپنے والد فریڈرک کے انتقال کے بعد، جائیداد کا کاروبار جاری رکھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود جوانی میں اس کاروبار سے منسلک ہوئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے، “مجھے علم تھا کہ میں یہی کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں کم عمری میں اپنے والد کے ساتھ جایا کرتا تھا … عمارتیں اور تعمیراتی اور ترقیاتی سرگرمیاں ہمیشہ میرے دل کو لبھاتی تھیں۔”
ٹرمپ کی والدہ نے اپنی زندگی میری مکلیوڈ کے نام سے شروع کی۔ وہ سکاٹ لینڈ کے دور دراز جزائر، ہیبرائیڈز کے ایک ماہی گیر کی بیٹی تھیں۔ وہ نقل مکانی کر کے امریکہ آگئیں۔ امریکہ میں وہ ٹرمپ کے والد سے ملیں اور نیویارک کی معاشرتی زندگی میں سرگرم ہوگئیں۔ یہاں انھوں نے فلاحی مقاصد کے لیے کیے جانے والے بے شمار کاموں میں حصہ لیا۔
ٹرمپ نے اپنی 1987 کی کتاب، The Art of the Deal میں لکھا، ” آج جب میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھے مہارت سے بات کرنے کا کچھ ذوق اپنی والدہ سے ملا ہے۔” انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ ٹیلیویژن پر ملکہ ایلزبتھ کی تاجپوشی کی تقریب دیکھ کر، “اس کی شان و شوکت سے مسحور ہوتی تھیں۔ وہ ہمیشہ سے ڈرامائی اور دھوم دھام سے بھرپور مناظر کی شوقین تھیں۔”