اِن گرمیوں میں ٹوکیو میں پہلی مرتبہ جب سرفنگ کو اولمپک کے ایک کھیل کی حیثیت حاصل سے شامل کیا جائے گا تو سب کی نظریں پانی کی لہروں پر جمی ہوں گیں۔
سرفنگ کے ماہرین اس کھیل کو شہرت کی بلندیوں پر لے جانے کا سہرا بابائے جدید سرفنگ، ڈیوک پاؤا کہناموکو کے سر باندھتے ہیں۔ اُن کی سوانح عمری کی مصنفہ، سینڈی ہال کے مطابق افسانوی شہرت کا مالک (ریاست) ہوائی کا یہ آبائی باشندہ آج تک پیدا ہونے والا پانی کا “عظیم” کھلاڑی تھا۔ ہال کہتی ہیں، “ایک کام جو اس نے نہیں کیا وہ یہ تھا کہ وہ پانی پر نہیں چلا۔”

کہاناموکو 1890ء میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو سمندری مہارتوں کے لیے مشہور تھا۔ وہ خود بھی سرفنگ کو مقبول بنانے سے قبل تیراکی کے اولمپک چمپیئن بن چکے تھے۔
1911ء میں کہاناموکو نے تیراکی کے 100 گز (91.44 میٹر) کے فری سٹائل مقابلے میں عالمی ریکارڈ قائم کیا اور شہہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ انہوں نے یہ کامیابی ہاتھوں اور پاؤں کے زیادہ طاقتور استعمال کی تکنیک متعارف کروا کر حاصل کی۔ اُن کی شہرت نے اس وقت نئی بلندیوں کو چھوا جب 1912ء میں انہوں نے امریکی اولمپک ٹیم کے لیے ایک سونے اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا۔ تب ہوائی امریکہ کی ریاست نہیں بنا تھا اور اس کی حیثیت امریکی علاقے کی تھی۔
وہ “دا ڈیوک” کے نام سے مشہور ہوئے اور انہوں نے تین اولمپک کھیلوں میں پانچ تمغے جیتے جن میں سے تین تمغے سونے کے تھے۔
وہ ریاست نیوجرسی کے شہر اٹلانٹک سٹی میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔ وہ اس شہر میں اپنی سرفنگ کی مہارت کا مظاہرہ کرنے کا اپنا وعدہ نبھانے کے لیے 1912ء میں دوبارہ آئے۔
کہاناموکو کو لکڑی کے بنے سرفنگ بورڈ پر سمندری لہروں پر سواری کرتا دیکھنے کے لیے تین ہفتوں میں ہزاروں لوگ آئے۔ اُن کے کرتبوں میں الٹی سمت میں سرفنگ کرنا اور ہاتھوں کے بل الٹا کھڑے ہونا بھی شامل تھا۔ 1913ء میں کہاناموکو نے ریاست کیلی فورنیا کے ساحلی شہروں میں تین مختلف مقامات پر سرفنگ میں اپنے کمالات دکھائے اور ایک بار پھر سب جگہوں پر انہوں نے متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
سرفنگ کے انسائیکلوپیڈیا کے بانی اور سرفر نامی رسالے کے سابقہ ایڈیٹر، میٹ وارشا نے کہا، “جب کبھی بھی ڈیوک سرفنگ کرتا تھا تو لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا۔ وہ بہت زیادہ متاثر کن تھا، اُس کے پیچھے کی جانب کنگھی کیے ہوئے سیاہ بال ہوتے تھے، وہ بہت وجیہہ تھا۔ وہ … حیران کن طور پر کمال طریقے سے یہ نیا کھیل کھیل سکتا تھا اور اس نے اس کھیل کو حیرت انگیز طور پر بڑا کھیل بنا دیا۔”
اس کے چند برس بعد کہاناموکو نے آسٹریلیا اور نیوزی میں لوگوں کی بڑی تعدادوں کو متاثر کیا۔ تاہم یہ 1925ء کا دلیری کا ایک کارنامہ تھا جس کیوجہ سے کہاناموکو لوگوں کے دلوں میں بسنے لگے۔ جب کیلی فورنیا کے قریب کرونا ڈیل مار نامی ایک کشتی ڈوبی تو انہوں نے لوگوں کی جانیں بچائیں اور انہیں بحفاظت ساحل پر پہنچایا۔ کہاناموکو کے ایک دوست ٹام ہنری نے دہائیوں بعد دس از یور لائف (یہ آپ کی زندگی ہے) نامی ٹی وی پروگرام کے 1957ء کے ایک شو میں اس واقعے کو پیش کیا۔
ہنری نے بتایا، “ڈیوک، تین مرتبہ تباہ شدہ کشتی سے ساحل پر آیا اور ہر مرتبہ اُس نے بچ جانے والے افراد کو ساحل پر پہنچایا۔”
کہاناموکو کی عوامی خدمت کا عرصہ تقریباً تین عشروں پر پھیلا ہوا ہے جس کے دوران انہوں نے ہونولولو شہر اور ہونولولو کاؤنٹی کے شیرف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جب 1950ء میں ہوائی امریکہ کی پچاسویں ریاست بنا، تو شہر کے خوش آمدید کہنے والے سرکاری عہدیدار کے لیے نگاہ انتخاب کہانامو پر پڑی کیونکہ وہ ایک کھلاڑی اور ہالی وڈ کے ایک ادا کار کی حیثیت سے بہت مقبولیت پا چکے تھے۔ اسی لیے ہونولولو میں سیاحت کو فروغ دینے کا سہرا اُن کے سر باندھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کہاناموکو نے ہالی وڈ کی خاموش اور فیچر فلموں میں اداکاری کی۔

ہوائی یونیورسٹی، مانوآ میں تاریخ کے پروفیسر، جان روسا کہتے ہیں، ” وہ کرشماتی ہونے کی حیثیت سے تو مشہور [تھے ہی] مگر وہ بہت خوش مزاج بھی تھے۔”
اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کہاناموکو نے 60 برس کی عمر میں سرفنگ کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی عمر کے آخری برسوں میں بادبانی کشتیاں چلانے کا مشغلہ اپنا لیا۔ اُن کا انتقال 77 برس کی عمر میں 1968ء میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ انہوں نے اپنے پیچھے شان، کھلاڑی پن اور عظمت سے بھرپور ورثہ چھوڑا۔”
وارشا نے کہا کہ وہ اپنے بعد انے والی سرفنگ کرنے والوں کی نسلوں کے لیے ایک درخشاں مثال بن گیا۔ انہوں نے کہا، “ڈیوک جہاں کہیں بھی گیا وہ اسی قسم کا شخص ثابت ہوا۔”