ڈی ڈے: امریکہ اور یورپ کے درمیان مشترکہ اور پائیدار بندھن

پچھتر سال قبل 6 جون 1944 کو امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے ریڈیو پر امریکیوں سے اپنے خطاب کے دوران ایک بہت بڑی “طاقتور مہم” کے بارے میں بات کی۔ آج ہم اسے “ڈی ڈے” کہتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب امریکی، برطانوی، کینیڈین اور آزاد فرانسیسی افواج  نے یورپ میں ہٹلر کی افواج کے خلاف وہ مغربی محاذ کھولا جس کے باعث 11 ماہ بعد نازی جرمنی کو شکستِ فاش ہوئی۔

فرانسیسی صدر ایمینوئل میکراں کے واشنگٹن کے 28 اپریل کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا، “لاکھوں امریکیوں اور آزاد فرانسیسیوں نے اکٹھے مل کر ضرورت کی اُن عظیم ترین گھڑیوں میں تہذیب کو بچانے کے لیے قربانیاں دیں۔”

روزویلٹ نے اس وقت جب اتحادی فوجی “پوائنٹ دو ہاک” نامی چوٹیوں کو سر کر رہے تھے، اپنے سامعین کو بتایا کہ وہ [فوجی] “ایک ایسے امن” کے لیے جنگ کر رہے ہیں” جو تمام انسانوں کو آزادی میں رہنے کے قابل بنائے گا۔”

Macron and Trump standing at attention among uniformed service members (© Pablo Martinez Monsivais/AP Images)
24 اپریل 2018 کو صدر ٹرمپ اور فرانسیسی صدر ایمینوئل میکراں وائٹ ہاؤس، واشنگٹن میں۔ (© Pablo Martinez Monsivais/AP Images)

ڈی ڈے بحر اوقیانوس کے آر پار وہ تعلق پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوا جو آج بھی کروڑوں افراد کی آزادی کو یقنینی بنانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسے “ایک ایسی مضبوط اور پائیدار شراکت کاری قرار دیا جو مشترکہ تاریخ، اقدار اور عشروں کے تعاون سے وجود میں آئی ہے۔”

مشترکہ تاریخ کبھی نہ ٹوٹنے والے بندھن میں باندھتی ہے

دوسری جنگ عظیم نے یورپ کو برباد کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ جارج سی مارشل نے کہا جنگ نے “یورپی معیشت کے پورے تار و پود کو” بکھیر کر رکھ دیا۔ 1947 میں ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے مارشل نے ایک ایسی امریکی پالیسی کا ذکر کیا جو “بھوک، غربت، مایوسی، اور افراتفری” کو مٹا دے۔ اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی متحرک معیشت کا احیاء ہونا چاہیے جو اس قسم کے سیاسی اور سماجی حالات پیدا کرنے کو ممکن بنائے جن میں آزاد اداروں کا وجود قائم رہ سکے۔”

یہ اُس مارشل پلان کا نقطہ آغاز تھا جس کے تحت یورپیوں اور امریکیوں نے مل کر ایک پروگرام تیار کیا۔ اس کے لیے امریکہ نے 12 ارب ڈالر کی امداد دی۔ اس کا مقصد اُس سب کچھ کی تعمیرِ نو میں مدد کرنا تھا جسے جنگ سے نقصان پہنچا تھا۔

پھر اس کے کیا نتائج نکلے؟ اِن کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ پومپیو نے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان “دنیا میں کہیں بھی پائے جانے والے سب سے بڑے وہ معاشی تعلقات پیدا ہوئے جن کی بدولت بحر اوقیانوس کی دونوں جانب کروڑوں ملازمتیں پیدا ہوئیں۔”

بحر اوقیانوس کے آرپار پھیلا ہوا اتحاد اتحادیوں کو مشترکہ دفاع پر بھی متحد کرتا ہے۔ 1949ء میں اقوام متحدہ، کینیڈا اور 10 یورپی اتحادیوں نے شمالی اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم، یعنی نیٹو بنائی۔ آج 29 رکنی نیٹو کے اتحادی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پومپیو نے کہا، “ہم بین الاقوامی سلامتی، مشترکہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے، اور اپنے تمام شہریوں کی خوشحالی کی بڑھوتری کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم دنیا میں امن اور جمہوریت کی قوت ہیں۔”

75 برس

صدر ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ 6 جون کو صدر میکراں کے ہمراہ فرانس کے ‘کولی ول سر میر’ نامی شہر میں واقع نارمنڈی کے امریکی قبرستان میں ڈی ڈے کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔ اس سے قبل اسی دن صدر اور خاتون اول برطانیہ کی ملکہ ایلیزبتھ دوئم  کے ہمراہ برطانیہ کے شہر پورٹس ماؤتھ میں ہونے والی ڈی ڈے کی ایک تقریب میں شرکت کریں گے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں سے امریکی، برطانوی اور کینیڈین افواج نے اپنے حیران کر دینے والے حملے کی تیاریاں کیں تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق 6,603 امریکیوں سمیت 10,000 اتحادی فوجی ڈی ڈے والے دن یا تو ہلاک اور زخمی ہوئے یا حملے کے دوران لاپتہ ہوگئے۔

Two women kneeling among rows of white crosses (© AP Images)
6 جون 1945 کو دو عورتیں نارمنڈی حملے کے ساحلوں کے پیچھے ایک جنگی قبرستان میں گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی ہیں۔ (© AP Images

صدر ٹرمپ نے 2017ء میں وارسا میں جمع ہونے والے اتحادیوں کو بتایا، “جب تک ہم اپنی تاریخ سے آگاہ رہیں گے، تب تک ہمیں یہ پتہ ہوگا کہ اپنا مستقبل کیسے تعمیر کرنا ہے۔ امریکیوں کو اس کا علم ہے کہ آزاد، خود مختار اور آزاد اقوام کا ایک مضبوط اتحاد ہی ہماری آزادیوں اور ہمارے مفادات کا بہترین دفاع ہے۔”

“ہماری آزادی، ہماری تہذیب، اور ہماری بقا کا انحصار تاریخ،  ثقافت، اور یاد کے انہی بندھنوں پر ہے۔”