کاروبار میں “خلل انگیزی” سے محفوظ رہنا

کتابوں کی فروخت، موسیقی، ٹیلی فون سروس، ٹیکسی، بجلی حتیٰ کہ جیٹ جہازوں کے انجنوں جیسے مصدقہ کاروباروں کے لیے، “خلل انگیزی” ایک خوفناک لفط ہو سکتا ہے۔

تاہم، ٹیکنالوجی کو نئے انداز میں استعمال کرنے والے بہت سے اختراع سازوں کے لیے یہ لفظ کامیابی کا حامل ہے۔ ایمیزون، اُوبر، ایئربی این بی، کایاک اور دوسرے اداروں نے گاہکوں تک پہنچنے یا انہیں خدمات مہیا کرنے کے تیزتر، سستے یا مزید قابل اعتبار طریقے ڈھونڈ کر اربوں ڈالر کے کاروبار کھڑے کیے ہیں۔

ٹیری جونز نے “ٹریولوسٹی” کے شریک بانی اور بعد ازاں “کایاک ڈاٹ کام” کے چیئرمین کی حیثیت سے سفری کاروبار میں “خلل ڈالا”۔ یہ آن لائن سائٹیں لوگوں کو آسان طریقوں سے ہوائی جہازوں کی ٹکٹیں اور ہوٹل بُک کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اب وہ “وے بلیزر” کے نام سے ایک نیا کاروبار شروع کرکے سفری منصوبہ بندی کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے اس صنعت میں ایک بار پھر “خلل” پیدا کرنے جا رہے ہیں۔

اختراع سازی کے عنوان سے ایک کتاب کے مصنف ٹیری جونز نے قطر، میکسیکو سٹی، کوالالمپور اور ابوظہبی میں اپنی تقاریر میں سامعین کو ڈیجیٹل اختراع کے حوالے سے پتے کی باتیں بتائی ہیں۔

اِن تقاریر اور ان کے ساتھ ہمارے اپنے انٹرویوز کے دوران سامنے آنے والے اہم نکات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  • ہرکاروبار کو ڈیجیٹل شکل دی جار رہی ہے۔ انٹرنیشنل کالز کی بھاری قیمت وصول کرنے والی ٹیلی فون کمپنیوں کا مقابلہ اب واٹس ایپ سے ہے جو لوگوں کو مفت رابطے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لوگ اپنے موبائل فونوں کے ذریعے بینکاری کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے بل ادا کر سکتے ہیں۔
  • انٹرنیٹ نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ معلومات اور اطلاعات کو آزادی مل گئی ہے۔ اگر کسی کے پاس آپ سے بہتر معلومات دستیاب ہیں تو وہ آپ پر حاوی ہو جائے گا۔
  • بڑی کمپنیوں کو مستعد رہنے، خود کو تیزی سے تبدیل کرنے اور نئے بااختیار صارفین سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے جن کے پاس بہت سے انتخاب ہیں۔
  • محدود وسائل ہنرمندی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ بھارت میں اخراجات کے بارے میں حساس سائنس دانوں اور انجینئروں نے 74 ملین ڈالر میں سیٹلائٹ سیارہ مریخ کے مدار میں بھیج دیا جو کہ امریکی، سوویت اور یورپی خلائی ایجنسوں کی جانب سے مریخ پر بھیجے گئے مشنوں سے کہیں زیادہ سستا ہے۔ (یہ اخراجات ہالی وڈ کی

دی مارشین‘ نامی فلم کی تیاری پر اٹھنے والی لاگت سے بھی کم ہیں)

  • نئی ٹیکنالوجی سے پرانی کمپنیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ بجلی گیس وغیرہ فراہم کرنے والی کمپنیاں اپنے صارفین کو توانائی کا استعمال کم کرنے کے لیے جدید تھرموسٹیٹ مفت فراہم کرتی ہیں۔ اس سے بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹس پر اٹھنے والے اخراجات بھی بچائے جا سکتے ہیں۔
  • صنعت کار اپنی مصنوعات میں خامیوں کی نشاندہی کرنے والا نظام شامل کرتے ہیں تاکہ مشینوں کو استعمال نہ کرنے والے وقت کا دورانیہ کم کیا جا سکے اور نئی رسد پہنچائی جا سکے۔
  • “بِگ ڈیٹا” یعنی معلومات کا انبار ہر جگہ موجود ہے مگر انہیں سمجھنا آسان نہیں۔ جو کاروباری منتظمین یہ جانتے ہیں کہ ان معلومات کو آسان کیسے بنانا ہے اور ان سے مفید معلومات کیسے حاصل کرنا ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔

ٹیری جونز “ہارٹ فورڈ سٹیم بوائلر” نامی کمپنی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرانی کمپنیوں کے لیے کھیل ختم نہیں ہوا۔ سٹیم بوائلروں کے معائنے اور ان کے بیمہ کے کاروبار سے منسلک کنیٹیکٹ سے تعلق رکھنے والی یہ کامیاب کمپنی، 1866 میں وجود میں آئی تھی۔ یہ کمپنی آج بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہے۔ تاہم اب یہ سائبر حملوں، شناخت کی چوری اور دیگر خدشات سے متعلق دوسری کمپنیوں کا بیمہ بھی کرتی ہے۔

ٹیری جونز کا کہنا ہے، “خلل انگیزی سے بھری دنیا میں اپنی بقا کے لیے آپ کو خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ آپ کو یہ سیکھنا پڑتا ہے کہ آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ تیز کیسے چلنا ہے۔”