(State Dept./D. Thompson)

پیشہ وارانہ زندگی اکثراس وقت شروع ہوتی ہے جب طلبا کالج میں پڑھائے جانے والے مضامین سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں بہت سے صحافی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لے کر ایسی چیزیں سیکھتے ہیں جو بعد  میں ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں ان کے کام آتی ہیں: جیسا کہ اپنے سکول کے اخباروں، ریڈیو سٹیشنوں یا ویب سائیٹوں کے لیے کیمپس کی خبریں رپورٹ کرنا۔

پیشہ ور صحافیوں کی سوسائٹی ہرسال ملک بھر میں سکول کی عمر کے صحافیوں کے بہترین کاموں کا انتخاب کرتی ہے۔ شئیر امریکہ نے اس سال اعزاز پانے والے کئی طالب علم صحافیوں سے بات کی اور انہوں نے جن کہانیوں/خبروں پر کام کیا اُن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ مقبولیت پانے والے طلبا میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

قارئین کو سوچنے پر مائل کرنا

Portrait of Gaby Morera (Courtesy of Gaby Morera)
(Courtesy photo)

گابی موریرا کا تحریرکردہ لی ہائی یونیورسٹی کی اُس سینئیر طالبہ کا تعارفی خاکہ، ابھی تک سکول کی ویب سائیٹ پر سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مضمون ہے جس نے اپنے جگر کا ایک حصہ شاذونادر لاحق ہونے والے جینیاتی بیماری میں مبتلا ایک بچے کوعطیہ  کیا تھا۔ یہ مضمون اکتوبر 2016 میں شائع کیا گیا تھا۔

اخبار کی ایڈیٹر انچیف موریرا کا کہنا ہے، “اچھی صحافت کا تعلق نہ صرف اِس قسم کی کہانیاں تلاش کرنے سے ہے، بلکہ اس کا تعلق صحیح طریقے سے انہیں بیان کرنے سے بھی ہے۔”انہیں ایسی کہانیوں میں دلچسپی ہوتی ہے جو قارئین کو اُن باتوں کے متعلق سوچنے پر مائل کریں جن کا ممکن ہے انہیں اپنی زندگی میں کبھی تجربہ نہ ہوا ہو۔

مسائل کی چھان بین کرنا

Portrait of Justin Sullivan (Courtesy of Justin Sullivan)
(Courtesy photo)

جسٹن سلیوان، براک پورٹ میں نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی کے کالج کے اخبار میں لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “میں اپنی زندگی کے کسی مرحلے پر چھان بین کرنے والا رپورٹر بننا چاہتا ہوں۔”جزو وقتی  پڑھانے والے پروفیسروں اور تدریسی عملے  کے کل وقتی ارکان کے غیر مساوی معاوضوں کے بارے میں ان کی انعام یافتہ رپورٹ، نے اعلیٰ تعلیم پر اثرانداز ہونے والے ایک مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

سلیوان، براک پورٹ ریڈیو سٹیشن کے لیے خبریں بھی رپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، “مجھے اگرچہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا، مگر تجربے کی کوئی قیمت نہیں۔”

ہیروز کا تلاش کرنا

Portrait of Sarah Sharp (Courtesy of Sarah Sharp)
(Courtesy photo)

 

سارہ شارپ نے ویسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی میں اپنے آخری دو برسوں کے درمیانی عرصے میں ریاست واشنگٹن کے ایک مقامی اخبار میں تربیتی کارکن کی حیثیت سے کام کیا۔ وہاں انہوں نے جو کہانیاں لکھیں، ان میں سے ایک ریڈیو کے اُن پرجوش شوقیہ رضا کاروں کے بارے میں تھی جنہوں نے 2014 میں ریاست واشنگٹن کے شہر اوسو، میں امریکی تاریخ کے تودہ گرنے کے بد ترین حادثے کے دوران مواصلاتی رابطوں کو کھلا رکھنے میں مدد کی۔

شارپ نے کہا کہ کالج کے اخبار میں اور تربیتی کارکن کی حیثیت سے کیے جانے والے کام کے دوران انہیں یہ آگاہی حاصل ہوئی کہ آن لائن اخباروں اور سوشل میڈیا کے اس دور میں سرگرم صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیزوں کو موقعے پر دیکھنے اور اِنہیں درست الفاظ میں بیان کرنے کی بنیادوں پر کام کریں۔ ان کا کہنا ہے، “میرے خیال میں ہم جو کام کرتے ہیں، اس میں ابھی تک تحریر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ہمیشہ حاصل رہے گی، مگر اب آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ مہارتوں کی ضرورت ہے۔”

اگر آپ امریکہ میں صحافت  ــــ یا کسی اور مضمون ــــ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنی پڑھائی کا منصوبہ بنانے کے لیے ایجوکیشن یو ایس اے  ملاحظہ فرمائیے۔


بیک پیک صحافت

بِل جنٹائیل واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں اپنی کلاسوں میں طلبا کو ایسی صحافت کے لیے تیار کرتے ہیں، جو ان کے زمانہِ طالب علمی میں ناممکن تھی۔

ایک آزمودہ کار رپورٹر اور دستاویزی فلم ساز، جنٹائل امریکن یونیورسٹی میں ‘بیک پیک جرنلزم’ نامی پراجیکٹ کے سربراہ ہیں۔ اس پراجیکٹ میں بیشتر توجہ “آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے نت نئے طریقوں اور ٹیکنالوجیوں” پر مرکوز کی جاتی ہے۔ صحافی چھوٹے چھوٹے کیمرے یا سمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے واقعات کو اُس درجے کی مہارت کے ساتھ  بیان کرسکتے ہیں جس کے لیے آج سے 20 سال پہلے چار فلمساز افراد  پر مشتمل عملہ درکار ہوتا تھا۔

جنٹائیل کہتے ہیں کہ آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا “ایک نئی زبان ہے۔ اگر طلبا اس زبان کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں  بول سکتے تو وہ  دو ایک سال پیچھے رہ جائیں گے۔ میں وہ کام کرسکتا ہوں، جو 20 سال پہلے  چار لوگ مل کر کرتے تھے۔ اور یہ سب کچھ  ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا ہے۔”