کالج کے طلبا کی کمسِن وائلن نواز کے لیے مصنوعی بازو کی تیاری

جارج میسن یونیورسٹی کے عبدالہدیٰ اور اُن کے ہم جماعت مسلسل دباؤ میں تھے۔ نہ صرف اُن کی گریجوایشن کا انحصار اِس منصوبے کی تکمیل پر تھا بلکہ ایک دس سالہ لڑکی کی تمام امیدیں بھی اِس منصوبے کی کامیابی سے جُڑی ہوئی تھیں۔

پانچویں جماعت کی طالبہ، ایسا بیلا نکولا کابریرا کو وائلن بجانے کا شوق تھا مگر وہ پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ سے محروم تھیں اور اُن کا بایاں بازو انتہائی چھوٹا تھا۔ ریاست ورجینیا کی فیرفیکس کاؤنٹی کے آئی لینڈ کریک نامی پرائمری سکول میں اُن کے موسیقی کے استاد نے اُن کے لیے ایک مصنوعی بازو اور ہاتھ بنوایا جس سے وہ وائلن بجانے والی ‘بو’ یعنی گز کو اپنے بائیں بازو سے حرکت دیتی تھیں اور اور تاروں کو اپنے دائیں ہاتھ  کی انگلیوں سے بجاتی تھیں۔ یہ طریقہ وائلن بجانے کے عام طریقے کے بالکل اُلٹ تھا۔ مگر مصنوعی بازو اور ہاتھ  وزنی تھا اور استاد نے کسی بہتر متبادل کی دستیابی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اُس نے قریب ہی واقع اپنی مادرِعلمی یعنی جارج میسن یونیورسٹی سے جسے مقامی لوگ “میسن” کے نام سے پکارتے ہیں، رابطہ کیا۔

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اُسی وقت میسن یونیورسٹی کے حیاتیاتی انجنیئرنگ کے شعبے کے ہدیٰ اور اُن کی ٹیم کے چار ساتھ اپنی آخری سال کی کلاس کے لیے کسی منصوبے کی تلاش میں تھے۔

ہدیٰ کا ماننا ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں شروع میں ہمیں کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔

وہ کہتے ہیں، “یہ ایک قسم کا شدید دباؤ تھا۔ آپ کے سامنے یہ ایک کمسن لڑکی تھی اور ہم سے توقع کی جارہی تھی کہ ہم یہ کام کریں گے۔”

ہدیٰ، مونا الخولی، ایلا نوووسیلسکی، راشا صالحہ اور یاسر الہندی پر مشتمل اِس ٹیم نے ایک سال میں مصنوعی ہاتھ کے کئی ایک بنیادی نمونے تیار کیے۔ ایسا بیلا، گروپ کے ساتھ  رابطے میں رہیں اور اسے اپنی رائے، بالخصوص مصنوعی ہاتھ کے وزن کے بارے میں آگاہ کرتی رہیں۔ ٹیم نے راہنمائی کے لیے، میسن میں موسیقی کی ایک پروفیسر، ایلزبتھ ایڈمز سے رابطہ کیا۔

Pink prosthetic hand holding violin bow (© AP Images)
ایسا بیلا کے انتظار میں میسن یونیورسٹی کے انجنیئرنگ سکول میں میز پر پڑے ہوئے ایک مصنوعی ہاتھ میں وائلن بجانے والی ‘بو’ پکڑی ہوئی ہے۔ (© AP Images)

دلی طور پر ایک موسیقار

ایسا بیلا جب چوتھی جماعت میں تھیں تو اُس وقت سکول کی طرف سے تاروں والے ساز سکھانے کی کلاسوں کی پیشکش، اُن کے دل کو بھلی لگی۔

ایسا بیلا کی والدہ آندریا کبریرا کہتی ہیں، “میں نے اُسے کبھی نہ نہیں کی۔ میں نے اُسے بتایا کہ ہم کوشش کریں گے۔ اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ سکول اُس کی ضروریات کے مطابق کوئی ساز تیار کر کے دے گا۔ تاہم اِن معجزوں کے ذریعے ہم آگے بڑھتے رہے۔”

ایسا بیلا کہ ذہن میں ذرہ برابر بھی شک  نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں، “مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ میں [وائلن] بجا سکوں گی۔ میں نے ہمیشہ اپنے آپ میں استقلال محسوس کیا ہے۔”

20 اپریل کو یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے ایسا بیلا کو مصنوعی بازو اور ہاتھ موصول ہوئے۔ ایک تھری ڈی یعنی سہہ جہتی پرنٹر کے مدد سے تیار کیے گئے اِن مصنوعی اعضا پر ایسا بیلا کی درخواست پر گہرا گلابی رنگ کیا گیا تھا اور اس کے بازو پر چمکدار الفاظ میں “ایسا بیلاز اٹیچمنٹ” یعنی ایسا بیلا کا بازو اور ہاتھ لکھا ہوا تھا۔ ایسے میں اب جب وہ اِس نئے ہاتھ سے مانوس ہو رہی ہیں وہ موسیقی کے ابتدائی سُروں کو بجاتی ہیں بلکہ بیتھوون کی “اوڈے ٹو جوائے” نامی دھن کے چند ایک سُر بھی بجا لیتی ہیں۔

نئے کم وزن دار مصنوعی ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے ایسا بیلا کے منہ سے نکلا، “اوہ میرے خدایا یہ تو بہت اچھا ہے۔”

ٹیم کے پاس ایسا بیلا کو حیران کرنے کے لیے ایک اور چیز بھی تھی: یہ تھا سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لگایا جانے والا مصنوعی بازو اور ہاتھ  تاکہ وہ سائیکل چلا سکے۔ ایسا بیلا نے کہا، “میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میرے ساتھ شاندار لوگوں کا ایک گروپ ہے۔”

اگر آپ امریکہ میں حیاتیاتی انجنیئرنگ یا کوئی دوسرا مضمون پڑھنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے یہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیے: EducationUSA