
امریکہ وسطی افریقہ کے ماحولیات کے دیرینہ علاقائی پروگرام (سی اے آر پی ای یا کارپ) کے منصوبے کی فنڈنگ کرنا جاری رکھے گا تاکہ وسطی افریقہ میں کانگو طاس کو محفوظ رکھنے میں مدد کی جا سکے۔ کانگو طاس کو موسمیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی غیرقانونی کٹائی سے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ یہ علاقہ حیرت انگیز حیاتیاتی تنوع میں معاونت کرتا ہے اور وسطی افریقہ کے پورے خطے میں زراعت اور معاش کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔
کارپ کے ذریعے امریکہ کانگو طاس میں جنگلات کی شراکت کاری میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے اراکین خطے میں مشترکہ تحفظ کے اہداف پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 13 دسمبر کو ماحول کو محفوظ رکھنے، موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے اور توانائی کی منصفانہ منتقلی پر ہونے والے فورم میں کہا کہ “ہم ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے شراکت داری کر رہے ہیں۔ افریقہ کا شمار دنیا کے بعض اُن سب سے قیمتی ماحولیاتی نظاموں کے خطوں میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔”
کانگو طاس 200 ملین ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ پائی جانے والی گرین ہاؤس گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی قابل ذکر مقدار کو جذب اور ذخیرہ کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق 60 ملین سے زائد افراد خوراک، رہائش اور روزگار کے لیے اس خطے پر انحصار کرتے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ کارپ منصوبے کا مشن کانگو طاس کے مرطوب جنگلاتی ماحول کے نظام کی ماحولیاتی سالمیت کو برقرار رکھنا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانوں کے پیدا کردہ خطرات اس کی بقا کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ “کانگو طاس کے برساتی جنگلات کی پائیدار انتظام کاری میں مدد کرنے کے لیے ہم نے وسطی افریقہ کے ماحولیات کے علاقائی پروگرام میں 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہے جس کی وجہ سے امریکی حکومت اور افریقی اور امریکی غیرسرکاری ادارے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔”
کارپ کے تحت مندرجہ ذیل ممالک میں کام کیا جا رہا ہے:-
-
- ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو [ڈی آر سی]
- جمہوریہ کانگو
- جمہوریہ وسطی افریقہ
- کیمرون
- گیبون
یو ایس ایڈ اِن ممالک میں پھیلے کانگو طاس کے اعلٰی حیاتیاتی تنوع کے حامل علاقوں کو محفوظ بنانے کے لیے در پیش خطرات کو مدنظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ “ہم اپنی مشترکہ ترجیحات یعنی اپنے سب سے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے میں سے کسی ایک کو بھی اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم انہیں برابری کے شراکت داروں کے طور پر مل کر انجام نہیں دیتے۔”