کان کنی کے شعبے میں ونیز ویلا کے شہریوں پر کیے جانے والے مظالم کا حوالہ دینے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ

گدلے پانی میں کھڑے کارکنوں نے ہاتھوں میں پانی کے بڑے بڑے پائپ پکڑے ہوئے ہیں (© Michael Robinson Chavez/The Washington Post/Getty Images)
کان کن سونے کی تلاش میں وینزویلا کے کینیما نیشنل پارک کے کنارے پر واقع دریا کے کناروں میں پانی کے طاقتور دباؤ سے سوراخ کر رہے ہیں۔ (© Michael Robinson Chavez/The Washington Post/Getty Images)

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، وینزویلا میں کان کنی کے اورینوکو قوس  نامی علاقے میں جنسی استحصال اور انسانوں کے بیوپار اور ہلاکتوں سمیت، انسانی حقوق کی پامالیاں ہر طرف پھیلی ہوئیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر، مشیل بیچلیٹ نے 15 جولائی کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں متاثرین اور گواہوں کے بیانات جمع کیے گئے ہیں۔ اُن میں قوس کے علاقے میں کان کنوں اور آبائی لوگوں کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کی تفصیلات بھی بیان کی گئیں ہیں۔ اس رپورٹ میں عدالتوں سے ماورا اُن ہلاکتوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو نکولس مادورو کی غیرقانونی حکومت کے تحت اور اُس کے کاسہ لیسوں کے ہاتھوں ملک بھر میں جاری ہیں۔

بیچلیٹ نے ایک بیان میں کہا، “حکام کو مشقت اور جنسی استحصال، بچوں کی مشقت اور انسانوں کے بیوپار کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔ انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، زیادتیوں اور جرائم کے ذمہ داروں کی تحقیقات کرنا ہوں گی، مقدمات چلانے ہوں گے اور سزائیں دینا ہوں گیں۔”

کان کنی کی اورینوکو قوس ملک کے وسطی حصے میں 112,000 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا رقبہ ہے جس میں سونے اور کوبالٹ جیسی قیمتی دھاتیں موجود ہیں۔ کان کنی کی کاروائیوں کی نگرانی وہ مسلح گروہ کرتے ہیں جو پرتشدد ڈراؤ دھمکاؤ کے ذریعے کان کنوں پر حکومت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کان کنوں سے کس طرح ہر روز 12 گھنٹے زیر زمین گہرے گڑھوں میں کام لیا جاتا ہے۔ انہیں اپنی آدھی تنخواہ مسلح گروہوں اور کان چلانے والوں کے حوالے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کان کنوں میں سے بعض کی عمریں نو سال ہوتی ہیں۔

کان کنوں کو کسی خیالی حکم عدولی کی وجہ سے وحشیانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حملوں میں اُن کے اعضا کاٹنے سے لے کر موت تک واقع ہو جاتی ہے۔

بیچلیٹ نے کہا، “خطے میں سیکیورٹی اور فوجی دستوں کی اچھی خاصی موجودگی، اور مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باوجود، حکام کان کنی سے جڑے انسانی حقوق کی پامالیوں اور زیادتیوں اور جرائم کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ”

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کانوں کے قریب رہنے والے کان کنوں اور آبائی قبائل کو پارے کی خطرناک سطحوں کا سامنا ہے۔ پارہ سونے کو صاف کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  پارے سے پھیلنے والے زہر سے، خاص طور پر عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

 ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچ جس پر آگ کا شعلہ مرتکز کیا گیا ہے (© Juan Barreto/AFP/Getty Images)
ریاست بولیوار میں واقع ایلکیلو کے مقام پر واقع کان میں ایک کارکن سونے اور پارے کے ملغوبے سے سونا علیحدہ کر رہا ہے۔ (© Juan Barreto/AFP/Getty Images)

2016 میں کان کنی کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد سے، عینی شاہدین نے جسم فروشی میں ڈرامائی اضافے کی اطلاعات دیں ہیں۔ اس تجارت کا نشانہ نوعمر لڑکیاں اور عورتیں بنتی ہیں اور وہ اکثر انسانوں کے بیوپاریوں اور جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے”صرف 2020 میں سیاسی وجوہات کی بناء پر 1,300 سے زائد عدالتوں سے ماورا پھانسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے،” کہا، “اقوام متحدہ کو اس کے علاوہ بھی مادورو کی غیرقانونی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے دلخراش ثبوت ملے ہیں۔”

پومپیو نے کہا، “مادورو پر بین الاقوامی دباؤ اس وقت تک ہرصورت میں جاری رکھنا چاہیے جب تک وینزویلا کے عوام اپنی جمہوریت واپس لینے کے قابل نہیں ہو جاتے۔”