پہلی جنگ عظیم کے بعد صدمے سے دوچار فوجیوں کی صدمے سے نکلنے کی جدوجہد کی کہانیاں اور ایک جاز پیانو بجانے والے کی موسیقی کے ذریعے سکون پانے کی کہانی کا شمار اُن امریکی کہانیوں میں ہوتا ہے جن سے لطف اندوز ہونے کے لیے سب کو مفت رسائی حاصل ہے۔
ہر سال یکم جنوری کو تخلیق کاروں کی روزی روٹی اور آنے والی نسلوں کے استعمال، دونوں کا تحفظ کرنے والے امریکہ کے کاپی رائٹ قانون کے تحت عام آدمی کے مفت استعمال کے لیے ہزاروں فن پاروں کی ایک فہرست جاری کی جاتی ہے۔
2022 کی جاری کردہ فہرست میں 1926 کی موسیقی، فلمیں، آرٹ اور ادب شامل ہیں۔ لہٰذا اساتذہ اور تھیٹر گروپوں سے لے کر انٹرنیٹ کمپنیوں تک، ہر کوئی آزادانہ طور پر دی ویئری بلیوز جیسے شاہکار استعمال کر سکتے ہیں۔ دی ویئری بلیوز لینگسٹن ہیوز کی شاعری کی پہلی کتاب کی مرکزی نظم تھی جس میں ہارلیم نشاۃ ثانیہ کے دوران افریقی نژاد امریکیوں کی موسیقی اور ثقافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
اس سال عوامی استعمال کے لیے ریلیز ہونے والے دیگر بڑے فن پاروں میں ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فالکنر کے پہلے ناول دی سن آلسو رائزز اور سولجرز ہیں۔ انگریز مصنفف اے اے ملن نے 1926 میں وِنی دا پُو شائع کی۔ تاہم امریکہ کے کاپی رائٹ قانون کے تحت پُو کی مہم جوئیوں کا پہلا مجموعہ تو ریلیز کیا جا رہا ہے مگر برطانیہ میں اسی قسم کے قانون کے تحت ان کہانیوں کو 2027 تک تحفظ حاصل ہے۔

امریکی آئین خاص طور پر کانگریس کو “مصنفین اور موجدین کی متعلقہ تحریروں اور دریافتوں کے خصوصی حق کو محدود وقت کے لیے محفوظ بنا کر، سائنس اور مفید فنون کی ترقی کو فروغ دینے کی خاطر” قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
کاپی رائٹ املاکِ دانش کے قانون کی وہ شکل ہے جو تصنیف کے اصل کاموں کی حفاظت کرتی ہے جن میں نظمیں، ناول، گانے، فن تعمیر اور یہاں تک کہ کمپیوٹر کے سافٹ ویئرز بھی شامل ہیں۔ اس کی دیگر شکلوں میں پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک شامل ہیں جو ایجادات اور اشتہارات میں استعمال ہونے والی علامتوں یا نعروں کی حفاظت کرتے ہیں۔
کاپی رائٹ کے دو اہم پہلو یعنی خصوصی حقوق کی مدت اور اس کے بعد استعمال کی آزادی ہیں۔ دونوں پہلو تخلیق کاروں کو مختلف طریقوں سے مراعات فراہم کرتے ہیں۔ جب کاپی رائٹ نافذ العمل ہوتا ہے تو مصنفین اپنی تصنیفات کے پیسے وصول کر سکتے ہیں۔
ناول نگاروں، شاعروں، مورخین اور صحافیوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے پرانی اور سب سے بڑی تنظیم، “آتھرز گِلڈ” [انجمنِ مصنفین] کا کہنا ہے، “کاپی رائٹ کا موثر تحفظ پیشہ ورانہ تصنیف کا بنیادی جزو ہے۔ یہ مصنفین کے لیے روزگار کے لیے لکھنے میں آسانیاں پیدا کرتا ہے،”
کاپی رائٹ سے ادب کو آزاد کرنے سے پرانے گانوں اور کہانیوں کی دستیابی بڑھ جاتی ہے اور نئی تخلیقات میں ان کے استعمال کی عام اجازت مل جاتی ہے۔ ممتاز ادبی نقاد، نارتھروپ فرائی نے کہا،”شاعری صرف دوسری نظموں سے [اور] ناول دوسرے ناولوں سے نکالے جا سکتے ہیں۔”
Just entered the @creativecommons celebration of Public Domain Day – celebrating the 400,000 #sound recordings from the pre-1923 era that are now in the #publicdomain thanks to the Music Modernization Act in the U.S.! pic.twitter.com/jGRp32KdtP
— Museum Of Portable Sound (@museumsound) January 20, 2022
کہانیوں، گانوں اور خاموش فلموں کے خزانے کے علاوہ، امریکی کاپی رائٹ سے اس سال ریلیز ہونے والی 1923 سے پہلے کی تقریباً 400,000 صوتی ریکارڈنگز بھی عوامی دائرہ کار میں آ گئی ہیں۔ اِس مواد کا تعلق آواز کی شروع شروع کی ریکارڈنگز کی دہائیوں سے ہے۔
یہ آوازیں اب ڈاؤن لوڈ، مکس اور دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔ جینیفر جینکنز ڈیوک یونیورسٹی کے لا سکول کے عوامی دائرہ کار کے مطالعاتی مرکز کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اس پیشرفت کو “تخلیقی صلاحیتوں کا سرچشمہ” قرار دیتی ہیں۔
جینکنز کہتی ہیں، “کاپی رائٹ کا بنیادی مقصد تخلیقیت کو فروغ دینا ہے اور عوامی دائرہ کار ایسا کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔”