انسانی حقوق، موسمیاتی بحران اور صحت عامہ اور دیگر مسائل بین الاقوامی سرحدوں کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔

اسی لیے ان مسائل کو بھی بین الااقوامی سرحدوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 7 مئی کو کہا، کثیر الجہتی بڑے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اب بھی  ہمارا بہترین ذریعہ ہے۔”

کثیرالجہتی تین یا تین سے زیادہ ممالک کے مابین منظم تعلقات کو کہتے ہیں۔ جب ہم خیال ممالک اتحاد بناتے ہیں تو یہ باہم شراکت کاری رکن ممالک کو عالمی مسائل کے حل تلاش کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔

صدر بائیڈن نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا، “ہمارے اجتماعی مستقبل کا انحصار اپنی مشترکہ انسانیت کو پہچاننے اور مل کر کام کرنے پر ہے۔ اقوام متحدہ سب سے بڑی اور ایک مانی ہوئی کثیرالجہتی تنظیم ہے۔ اسے 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ممالک نے بنایا تھا۔

ذیل میں چند ایک کثیرالجہتی پروگراموں اور تنظیموں کی مثالوں پر ایک قریبی نظر ڈالی گئی ہے:-

کوویکس

 ہوائی اڈے پر پڑے ویکسین کے ڈبوں کو ہوائی جہاز پر لادا جائے گا۔ (© Brian Inganga/AP Images)
امریکہ ویکسین کے عالمی پروگرام، کوویکس میں سب سے زیادہ مدد کرنے والا واحد ملک ہے۔ اوپر تصویر میں کینیا کو کوویکس پروگرام کے تحت بھیجی جانے والی ویکسینوں کا ایک منظر۔ (© Brian Inganga/AP Images)

سرکاری اور نجی شراکت داری کے پروگرام، کوویکس کے تحت 144 ممالک میں لاکھوں لوگوں تک کووڈ-19 ویکسین کی خوراکیں پہنچائی گئیں ہیں۔ کثیرالجہتی سے سب کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے۔ کوویکس پروگرام کے تحت کووڈ-19 کی تشخیص، علاج، اور ویکسینوں تک سب کو اختراعی اور مساوی رسائی فراہم کرتا ہے۔

امریکہ کوویکس کے تحت دوسرے ممالک کو 1.1 ارب سے زائد کووڈ-19 ویکسین کی خوراکیں عطیے کے طور پر دے رہا ہے۔ آج تک کوویکس 144 شریک ممالک میں کووڈ-19 ویکسین کی 435 ملین سے زائد خوراکیں لوگوں کو بھیج چکا ہے۔

کوویکس پروگرام میں رابطہ کاری کا کام وبائی بیماریوں کے لیے تیاری کا اتحاد، گاوی، اقوام متحدہ کے بچوں کا فنڈ (یونیسیف) اور اقوام متحدہ کا خصوصی ادارہ یعنی عالمی ادارہ صحت کرتا ہے۔

نیٹو

 ہیلی کاپٹر کھلے میدان میں سامان گرا رہے ہیں۔ (U.S. Army/Michele Wiencek)
ہیری ٹرومین کے بعد سے ہر امریکی صدر نے نیٹو کے ساتھ امریکی وابستگی کا عہد کیا ہے۔ اوپر جرمن فوج کے ہیلی کاپٹر اکتوبر میں ایک فوجی مشق کے دوران سامان لے کر جا رہے ہیں۔ اس مشق میں امریکہ، جرمنی، ہالینڈ اور رومانیہ کی افواج کے دستے شامل تھے۔ (U.S. Army/Michele Wiencek)

امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 میں نیٹو کے قیام میں مدد کی تاکہ کسی بھی رکن ملک کا اُس پرحملہ کیے جانے کی صورت میں تحفظ کیا جا سکے۔ نیٹو ایک صدی کے تقریباً تین چوتھائی عرصے سے بحراوقیانوس کے آرپار واقع ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک اہم ستون بنا ہوا ہے۔

جون میں صدر بائیڈن سے ملاقات کے دوران نیٹو کے سیکرٹری جنرل، جینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ مضبوط نیٹو اتحاد یورپ اور امریکہ دونوں کے لیے اچھا ہے۔

11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر کیے جانے والے حملوں کے بعد نیٹو کی امریکہ کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دیتے ہوئے بائیڈن نے 14 جون کو کہا، “میں امریکیوں کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے بعد جب امریکہ کے ساحلوں پر پہلی بار حملہ ہوا، تو نیٹو مدد کو آیا۔” صدر بائیڈن 30 ملکی اتحاد کے ساتھ جڑے امریکی عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔

آسیان

 آسیان لیڈروں کا ورچوئل سربراہی اجلاس۔ (© Brunei ASEAN Summit/AP Images)
صدر بائیڈن نے 26 اکتوبر کو آسیان کے ایک ورچوئل سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔ آسیان برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام پر مشتمل ہے۔ (© Brunei ASEAN Summit/AP Images)

اقتصادی اور سلامتی مسائل سے نمٹنے کے لیے علاقائی اتحاد بہت ضروری ہوتے ہیں۔ امریکہ نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ساتھ 40 سال سے زیادہ عرصے سے اقتصادی اور سلامتی کے امور پر کام کیا ہے۔ حال ہی میں صدر بائیڈن نے 26 اکتوبر کو آسیان رہنماؤں سے ورچوئل ملاقات کی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔

امریکہ نے صحت، موسمیات، اقتصادیات، تعلیم اور صنفی مساوات اور عمومی مساوات سے جڑے مسائل میں 10 ملکی اتحاد کی مدد کرنے کے لیے 102 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔

بائیڈن نے اجلاس کے دوران کہا، “ہماری شراکت داری ایک آزاد اور کھلے بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ {خطہ] کئی دہائیوں سے ہماری مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کی بنیاد چلا آ رہا ہے۔”

امریکہ کواڈ پارٹنرشپ کا بھی رکن ہے جس میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ کواڈ کے رکن ممالک آزاد اور کھلے بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے 24 ستمبر کو کواڈ میں شامل ممالک کے رہنماؤں سے شخصی طور پر ملاقات کی۔

پیرس سمجھوتہ

اپنے عہدہ صدارت کے پہلے دن صدر بائیڈن نے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی خطرے سے نمٹنے کے لیے پیرس موسمیاتی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیزی سے کام کیا۔

اپریل میں صدر نے آب و ہوا سے متعلق رہنماؤں کی پہلی سربراہی کانفرنس بلائی۔ اس میں 40 سے زائد عالمی رہنماؤں کا ایک تاریخی اجتماع ہوا جس میں ایسے عالمی تعاون اور کاربن کے اخراجوں میں کمی کی ضرورت پر زور دیا گیا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ ستمبر میں انہوں نے میتھین کے اخراج  کم کرنے اور دیگر کوششوں کی حمایت کے لیے سرکردہ رہنماؤں کے ایک اور اجلاس کا اہتمام کیا۔

صدر نے یکم نومبر کو کوپ26 کے نام سے جانی جانے والی 2021 کی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس کے دوران کہا کہ اگر ہم اکٹھے ہو جائیں تو ہم عالمگیر حدت کو صرف 1.5 ڈگری سنٹی گرید تک محدود رکھنے کے ہدف کو اپنی پہنچ میں رکھ سکتے ہیں۔