کروڑوں لوگوں کے پیٹ بھرنا؟ انھوں نے یہ کام کر دکھایا

غربت کے خلاف جنگ کرنے والے بنگلہ دیشی فضلِ عابد جنہوں نے 2015ء کا غذا کا عالمی انعام جیتا۔ (Courtesy photo)

غذا کے عالمی انعام  کو کبھی کبھار “غذا اور زراعت کا نوبیل انعام” بھی کہا جاتا ہے۔ اس انعام کے تحت ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے جنھوں نے دنیا میں غذا کی فراہمی کے سلسلے میں انقلابی کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس سال یہ انعام جیتنے والے بنگلہ دیش کے ایک سابق اکاؤنٹنٹ ہیں۔

سر فضلِ حسن عابد، جنہیں برطانیہ کی ملکہ نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سر کا خطاب دیا، بنگلہ دیش رورل ایڈوانسمنٹ کمیٹی [ بی آر اے سی] کے بانی ہیں ۔ انھوں نے یہ تنظیم 1972ء  میں بنگلہ دیش کے ہولناک سمندری طوفان اور آزادی کی جنگ کے بعد قائم کی تھی۔ 40 سال گذرنے کے بعد، بی آر اے سی  نے تقریباً 15 کروڑ لوگوں کی غربت سے نجات دلانے میں مدد کی ہے۔

عورتوں اور بچوں پر خصوصی توجہ

عابد لڑکیوں کی تعلیم اور عورتوں کو بااختیار بنانے کی حامی ہیں۔ (Courtesy of the World Food Prize)

بہت سی اقسام  کے کاروباری اداروں کو مدد دینے کے علاوہ، جن میں ماہی پروری، چائے کے باغات اور دودھ  کے  پراسسنگ کے مراکز شامل ہیں، عابد نے دیہی علاقوں میں رہنے والی عورتوں کی مدد کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ دیہی علاقوں کی عورتیں کاشتکاری کے جدید طریقے  سیکھتی ہیں مثال کے طور پر فصلیں اگانے کے لیے مصنوعی کھاد کے استعمال کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ عابد نے ایسے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے ذریعے چھوٹے قرض دینے والی تنظیموں کے ذریعے  لاکھوں لوگوں نے 1 ارب ڈالر سے زیادہ رقم تقسیم کی ہے۔ ان قرضوں کے ذریعے عورتوں نے چھوٹے چھوٹے منافع بخش کاروبار قائم کیے ہیں جن میں آئیوڈین ملے خوردنی نمک کی تیاری، گایوں کی پرورش، اور دُودھ  دہی اور مرغبانی کے کاروبار چلائے جاتے ہیں۔

بی آر اے سی کی اختراعات کی بدولت  بنگلہ دیش میں بچوں کی شرح اموات 25 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ عابد نے عورتوں کو پانی، نمک اور چینی کے محلول تیار کرنے کا طریقہ سکھایا، جس سے جسم میں پانی کی کمی سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ یہ طریقہ سکھانے والوں کی اجرت کا انحصار اس بات پر ہوتا تھا کہ گھرانوں نے ان کے اسباق کو کتنی اچھی طرح سے سیکھا ہے۔ در حقیقیت، اس پروگرام کا شمار دنیا کے سماجی کاروباری تنظیم کاری  کے ان اولین پروگراموں میں ہوتا ہے جن کی بنیاد ترغیب پر ہے۔

عابد کو جب اس اعزاز کے لیے اپنی نامزدگی کا پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ “کرۂ ارض سے غربت اور محرومی کا خاتمہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہو گا جب غریب ترین لوگوں، اور خاص طور سے عورتوں کو خود اپنے حالات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔”

تنزانیہ کی ڈسٹرکٹ ڈوڈوما کی ایک کسان خاتون، کرسٹینا جان کی مثال لیجیے۔ بی آر اے سی نے انہیں سبزیوں کے بیج اور کھیتوں کے انتظام کے جو طریقے سکھائے تھے، اُن کی بدولت اِن کی آمدنی میں چار گنا اضافہ ہوا۔ اب وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے لیے کافی پیسے کما لیتی ہیں۔ بی آر اے سی  نے مشرقی افریقہ کے اس بڑے ملک میں اپنی کارروائیاں 2006ء  میں شروع کی تھیں۔

کروڑوں لوگوں کا پیٹ بھرنا

بی آر اے سی آج بنگلہ دیش اور ایشیا کے 10 دیگر ممالک، افریقہ اور کیریبین میں مصروفِ عمل ہے، اور اندازاً 13 کروڑ 50 لاکھ افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پرائز کے صدر کینِتھ کوئن نے کہا، ” ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو 9 ارب لوگوں کا پیٹ بھرنے کے عظیم  مسئلے کا سامنا ہے، عابد اور بی آر اے سی نے ایک ایسا کمال کا ماڈل تیار کیا ہے جس کی ساری دنیا میں تقلید کی جا رہی ہے، اور جو یہ بتاتا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم کیسے دی جائے، عورتوں کو کیسے با اختیار بنایا جائے، اور پوری نسل کو غربت سے کیسے نکالا جائے۔”

امریکہ کے وزیرِ زراعت   ٹام وِلسیک  نے کہا کہ “سر فضل اور ان کی تنظیم  کے اس ادراک سے کہ عورتوں کی STEAM — کے شعبوں یعنی سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ، زراعت اور ریاضی — میں شمولیت کتنی ضروری ہے  ہماری مقامی اور عالمی کمیونٹیوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ”

عابد کے کام سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کو، خاص طور سے عورتوں کو، فائدہ پہنچا ہے۔(Courtesy of the World Food Prize)

غذا کے عالمی انعام کی ابتدا کیسے ہوئی

غذا کے عالمی انعام کا تصور 1986ء  میں امن کے نوبیل انعام یافتہ نارمن بورلاگ نے پیش کیا تھا۔ وہ ایک زرعی سائنسداں تھے جو ریاست آیووا کے ایک فارم پر پلے بڑھے۔ وہ 1960ء  اور  1970ء کی دہائیوں کے سبز انقلاب کے خالق  کے طور پر مشہور ہیں۔ انھوں نے مختلف پودوں کو گندم کے ساتھ ملا کر گندم کی سینکڑوں اقسام تیار کیِں، گندم کا چھوٹا پودہ” تیار کیا اور زراعت کی  ایک ایسی نئی تکنیک متعارف کرائی جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ ہلاکت اور قحط سے بچ گئے۔

یہ انعام حاصل کرنے والوں میں دنیا بھر کے ملکوں کے لوگ شامل ہیں۔ ان میں بھارت، چین، کیوبا، ڈنمارک، سیئرالیون، برازیل، اور ایتھیوپیا شامل ہیں۔ ایتھیوپیا کے  گبیسا اجیٹا  نے افریقہ کے لیے سورگم [جوار] کی ایک قسم تیار کی جو خشک سالی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ جن امریکیوں نے یہ انعام جیتا ہے ان میں غذائی سائنسداں نیلسن فِلپ شامل ہیں جنھوں نے بڑی مقدار میں غذا کی نقل و حمل اور اسے محفوظ کرنے کے طریقوں میں انقلاب برپا کر دیا۔

عابد کو غذا کا عالمی انعام 15 اکتوبر کو ریاست آیووا کے شہر ڈا موئن میں بورلاگ ڈائیلاگ کے دوران دیا جائے گا۔ یہ ایک تین روزہ  بین الاقوامی مذاکرہ  ہے جس میں دنیا کے 65 سے زیادہ ممالک کے غذا اور ترقیات کے ماہر شریک ہوتے ہیں۔