
امریکی محکمہ خارجہ اپنے ‘سائنسی ایلچیوں کے پروگرام’ کے تحت سائنس کے میدان میں امریکی قیادت اور تکنیکی زیرک پن کا مظاہرہ کرنے کے لیے امریکی سائنس دانوں اور انجنیئروں کو اکٹھا کرتا ہے۔
اس برس امریکہ کے سائنس دان ایلچیوں کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے جن سات نامور سائنس دانوں کا انتخاب کیا گیا ہے اُن میں خواتین کی اکثریت ہے اور یہ پروگرام کی تاریخ کا متنوع ترین گروپ ہے۔
اِس نئے گروپ میں شامل لوگ 2 فروری کو اِس پروگرام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن میں جمع ہوئے۔ انہوں نے انتظامیہ کی ترجیحات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں تاکہ مشترکہ چیلنجوں کے حل کے لیے مستقل بین الاقوامی تعاون کے مواقع کی نشاندہی کی جا سکے۔
محکمہ خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری مونیکا میڈینہ نے اِس گروپ کے اراکین کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ “سائنس ہمارے سفارتی اور دو طرفہ تعلقات کو تقویت پہنچاتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد وہ اصول اور اقدار ہوتی ہیں جو سیاست، زبانوں، سرحدوں اور ثقافت سے بالاتر ہوتی ہیں۔”
Thrilled to meet the new cohort of #USScienceEnvoy today. Our distinguished Science Envoys play an important role in forging connections and identifying opportunities for sustained international cooperation through #ScienceDiplomacy. pic.twitter.com/mGF7DuIsg7
— Wendy R. Sherman (@DeputySecState) February 2, 2023
ایلچی سائنس دانوں سے ملیے
اِن سائنس دانوں کا انتخاب اور منظوری وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے اُن کے کام کی بنیاد پر دی۔ اس عمل کے دوران امریکہ کے آب و ہوا اور خارجہ پالیسی کے موضوعات کے وسیع سلسلے کو پیش نظر رکھا گیا۔ مثلاً:-
- سمندروں اور سمندری علاقوں کا تحفظ۔
- غیرقانونی، چوری چھپے اور خلاف ضابطہ ماہی گیری۔
- جانوروں سے انسانوں کو لگنے والی بیماریوں کی ترجیحات کا تعین۔
- آلودگی پھیلانے والا پلاسٹک۔
- کوانٹم انفارمیشن سائنس اور ٹیکنالوجی۔
- ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل کے فطرت کی بنیاد پر تلاش کیے جانے والے حل۔
- ماحولیاتی سائنس اور مقامی آبائی علم کا گٹھ جوڑ۔
ڈریو ہارویل، کورنیل یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ واشنگٹن یونیورسٹی کے تدریسی شعبے کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ آج کل وہ ماحولیاتی تبدیلی کے سمندروں پر پڑنے والے اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں۔ اُن کی تحقیق کا مرکز بحیرہ سیلش کے بین الریاستی پانی میں سطح آب سے اوپر شکار کرنے والے پرندوں اور جانوروں کی صحت اور سمندری گھاس کی چراہگاہوں کی حالت ہے۔
جیسیکا گیپہارٹ امریکن یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اِن دنوں وہ سمندری خوراک کی عالمگیریت اور ماحولیاتی تبدیلی کے ملاپ اور سمندری خوراک کی تجارت کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کر رہی ہیں۔
کرسٹین کریڈر جانسن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی وباؤں اور ماحولیاتی نظام کی موجودہ صورت حال کی پروفیسر اور اسی یونیورسٹی کے جانوروں کی دواؤں کے سکول میں بیماریوں کی حرکیات کے مرکز کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے جانوروں اور انسانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ اُن کے کام سے وبائی امراض کے خطرات کو کم کرنے سے متعلق حکومتی پالیسی سازی میں مدد ملتی ہے۔

لاشانڈا کورلی، ڈیلاویئر یونیورسٹی میں میٹریل سائنس اور انجنیئرنگ اور کیمیائی اور بائیومالیکیولر انجنیئرنگ کی مشہور پروفیسر ہیں۔ انہیں اعلٰی درجے کی چپکائی جانے والی اشیاء تیار کرنے کے لیے بیالوجی سے اخذکردہ دیرپا اصول استعمال کرنے کے شعبے میں ایک عالمی لیڈر کا مقام حاصل ہے۔
پرینیہا نارنگ کیلی فورنیا یونیورسٹی، لاس اینجلیس کی پروفیسر اور ہاورڈ رائیس کے نام سے منسوب فزیکل سائنس کے شعبے کی سربراہ علاوہ کوانٹم سائنس اور ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں پر تحقیق کرنے والے گروپ کی سربراہ بھی ہیں۔
فرانسس سیمور گرم مرطوب خطے کے جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی ماہر ہیں۔ وہ وسائل کے عالمی انسٹی ٹیوٹ کی ممتاز سینیئر فیلو ہیں۔ اقوام متحدہ کے REDD+ [ریڈ پلس] نامی پروگرام کے فنِ تعمیرات کے بورڈ کی سربراہ اور “جنگلات کیوں؟ ابھی ہی کیوں؟ گرم مرطوب خطوں کے جنگلات اور موسمیاتی تبدیل کی سائنس، معاشیات، اور سیاست” کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کی سرکردہ مصنفہ بھی ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک انڈنیشیا میں جنگلات کی تحقیق کے بین الاقوامی مرکز کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔
کائل وائیٹ مشی گن یونیورسٹی کے ماحولیات اور پائیداریت کے کالج میں پروفیسر ہیں۔ اُن کا تعلق آبائی امریکیوں کی پوٹاواٹومی قوم سے ہے۔ وہ وائٹ ہاؤس کی ماحولیاتی انصاف کی مشاورتی کونسل میں شامل ہونے کے علاوہ امریکہ کے موسمیاتی جائزے کی رپورٹ میں شامل قبائل اور آبائی اقوام کے باب کے سرکردہ مصنف کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق آب و ہوا کی تبدیلی اور تحفظ کی منصوبہ بندی، تعلیم اور پالیسی میں امریکہ کی آبائی اقوام کے حقوق اور اُن کی جانکاری پر مرکوز ہے۔