کریملن کا روسی میڈیا کے مزید اداروں پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا

کتابوں کی ایک الماری کے سامنے کھڑا آدمی تقریر کر رہا ہے (© Alexander Zemlianichenko/AP Images)
7 اکتوبر2021 ماسکو میں، اپنی رپورٹنگ کے لیے 2021 کا نوبل امن انعام جیتا۔

صدر ولاڈیمیر پوٹن کی روسی فیڈریشن میں حقائق پر مبنی، معروضی رپورٹنگ ایک طویل عرصے سے خطرناک چلی آ رہی ہے۔ لیکن روس کے 24 فروری کو یوکرین پر بھرپور حملے کے بعد، روس میں صحافیوں اور شہریوں کو اب جنگ کی درست کوریج یا احتجاج کرنے پر طویل قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

کریملن کی میڈیا مانیٹرنگ ایجنسی راس کومینزور کے دباؤ کی وجہ سے آزاد اخبار نوایا گزیٹہ نے مارچ کے آخر میں اپنی کارروائیاں معطل کر دیں۔ راس کومینزور نے نوایا گزیٹہ کے چیف ایڈیٹر دیمتری موراتوف کے یوکرین کے صدر ولوڈیمیر زیلینسکی کے انٹرویو پر پابندی لگا دی تھی اور روس کے ‘غیر ملکی ایجنٹوں’ کے قانون کے تحت کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ اس قانون کے تحت صحافیوں کو جرمانے، ہراسگی اور ممکنہ قید کا سامنا کرنا پڑاتا ہے۔

روسی میڈیا کے بہت سے دیگر آزاد ادارے بھی کریملن کے آزاد میڈیا پر مسلسل دباؤ کی وجہ سے اپنی کارروائیاں معطل کر چکے ہیں۔ اِن میں میڈوزا، دوژہ ٹی وی اور ایکو ماسکوی شامل ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے خلاف کریملن کی مکمل جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 150 سے زائد صحافی روس چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

سیاسی گرفتاریوں پر نظر رکھنے والے انسانی حقوق کے او وی ڈی-انفو نامی گروپ کے مطابق روسی حکام نے 15,000 سے زائد مظاہرین کو پوٹن کی وحشیانہ اور بلا اشتعال جنگ کی پرامن مخالفت کرنے پر حراست میں لیا ہے۔

آزادی اظہار کے خلاف کریملن کی کاروائیوں کو مارچ میں نافذ کیے گئے دو قوانین کے ذریعے فعال کیا گیا ہے جن کے تحت حقائق پر مبنی جنگ کی رپورٹنگ اور جنگ مخالف مظاہروں پر 15 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

“رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” نامی تنظیم اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے، “کوئی بھی صحافی عجلت میں بنائے گئے مبہم الفاظ والے سخت قوانین کے تحت سنگین الزامات کے خطرات سے محفوظ نہیں ہے-”

کریملن نے فیس بک اور انسٹاگرام کو بھی بلاک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین کے خلاف اپنی جارحیت کے بارے میں روسی شہریوں کی معلومات تک رسائی کو روکنے کے لیے ٹویٹر تک رسائی بھی محدود کر دی گئی ہے۔ راس کومینزور نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) اور وائس آف امریکہ، بی بی سی اور جرمنی کے ڈوئچ ویلے کی روسی زبان کی ویب سائٹوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔

6 مئی کو ایک روسی عدالت نے روسی صحافی الیگزینڈر نیوزو روف کی غیر حاضری میں گرفتاری کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے روس کی جانب سے یوکرین کے شہر ماریوپول میں زچگی کے ایک ہسپتال پر بمباری کی رپورٹنگ کی تھی۔ وائس آف امریکہ کے مطابق نیوزو روف پر جو مارچ میں اسرائیل میں تھے “جان بوجھ کر جھوٹی” خبریں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

 ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران لوگوں نے کتبے اٹھا رکھے ہیں (© Yuliia Ovsiannikova/Ukrinform/Future Publishing/Getty Images)
لوگ ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے فری لانس صحافی ولاڈیسلاو یسی پینکو کے حق میں کیئف، یوکرین میں جولائی 2021 میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ (© Yuliia Ovsiannikova/Ukrinform/Future Publishing/Getty Images)

یوکرین پر بھرپور حملے سے پہلے روس کے زیر قبضہ کریمیا کی ایک عدالت نے آر ایف ای/آر ایل کی یوکرینی سروس کے ایک آزاد صحافی ولاڈیسلاو یسی پینکو کو اُن الزامات کی بنا پر چھ سال قید کی سزا سنائی جن کے بارے میں وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ اِن کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں اور یہ آزادانہ رپورٹنگ کا نتیجہ ہیں۔ یسی پینکو کا کہنا ہے کہ حکام “اُن فری لانس صحافیوں کو اِن کے کام کی وجہ سے بدنام کرنا چاہتے ہیں جو حقیقت میں وہ چیزیں دکھانا چاہتے ہیں جو واقعی کریمیا میں ہو رہی ہیں۔”

آر ایف ای/آر ایل کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر جیمی فلائی نے 30 مارچ کو “سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز” کو بتایا گو کہ روس میں خبر رساں اداروں کو طویل عرصے سے پابندیوں کا سامنا ہے، تاہم “کریملن کی” روس کی یوکرین کے خلاف اپنی جنگ کے بارے میں روس کے اندر ہونے والی “کسی بھی عوامی گفتگو پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش” کی وجہ سے اس دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس دباؤ کے نتیجے میں آر ای ایف/آر ایل نے حال ہی میں ماسکو میں اپنی کارروائیاں معطل کر دیں۔