کشادگی اور کاروبار کی آسانی: امریکہ اور چین میں موازنہ

Graphic showing placement of five countries on competitiveness scale (State Dept.)
(State Dept.)

امریکہ اور چین دنیا میں دو سب سے بڑی معیشتیں اور سب سے بڑے تجارتی ممالک ہونے کے علاوہ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر معاشی مماثلتیں یہاں  پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔

آزاد، غیرجانبدار، عالمی اور غیرسرکاری تنظیم، ‘ورلڈ اکنامک فورم’ کی جانب سے تیار کیے گئے عالمگیر مسابقتی اشاریے کے تازہ ترین نتائج پر ذرا غور کیجیے۔ اس اشاریے میں ملکی منڈیوں، انسانی سرمائے، معیار تعلیم اور مسابقتی شدت جیسے حقائق کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں ہر درجے میں امریکہ چین کو مات دیے ہوئے ہے۔ مجموعی طور پر اس اشاریے میں امریکہ  اول نمبر پر جبکہ چین اٹھاویں  نمبر پر ہے۔ (سنگاپور کا نمبر دوسرا ہے)۔

امریکہ ‘کاروبار میں آسانی’ کے حوالے سے عالمی بینک کے اشاریے میں بھی آگے ہے جہاں 190 ممالک میں چین کا نمبر 78واں ہے اور وہ چھٹے نمبر پر آنے والے امریکہ سے 72 درجے پیچھے ہے۔

عالمی بنک جن بنیادوں پر یہ درجہ بندی کرتا ہے اُن کا تعلق نیا کاروبار کرنے میں آسانیاں اور اقلیتی سرمایہ کاروں کو حاصل تحفظات سے ہے۔

یہ دونوں درجے کاروبار کرنے والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ کہاں سرمایہ کاری اور تجارت کی جانی چاہیے اور ان کی مدد سے پالیسی سازوں کو اپنی معاشی حکمت عملی کی تشکیل کے سلسلے میں رہنمائی ملتی ہے۔

حکومت کے زیراثر معیشت

معاشی معاملات میں اشتراکی حکومت کا غالب کردار چین میں کاروبار کے حوالے سے درپیش مشکلات کا اہم سبب ہے جس میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے مقابلے میں چینی کاروباروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے  اوپر سے نیچے کی سمت رائج پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اس سے عالمگیر کاروباروں کو یکساں اور جائز مواقع نہیں ملتے جس سے عالمگیر منڈیوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا امریکہ کے مزید فطری اور نیچے سے اوپر کی جانب اثرپذیر طریقہ کار سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جس میں سبھی کو منصفانہ طور پر برابرکے مواقع دستیاب ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوتی ہے۔

اگرچہ چین نے حالیہ دہائیوں میں منڈی کی معیشت کی جانب پالیسیوں کے سلسلے میں پیش رفت کی ہے تاہم چینی حکومت ابھی تک ریاستی ملکیت میں چلنے والے کاروباروں کے بااثر نیٹ ورک، ریاستی بینکوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے احکامات اور غیرملکی کمپنیوں سے امتیازی سلوک کا سبب بننے والے غیرشفاف ضوابط کے ذریعے معیشت میں بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہے۔

Graphic comparing China and U.S. in ease of doing business factors (State Dept.)
(State Dept.)

مثال کے طور پر چین کی ‘میڈ ان چائنا 2025’ کی صنعتی پالیسی کے تحت حکومت اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے ضمن میں عالمی حریفوں کے نقصان کے بدلے مقامی کمپنیوں کی ترقی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے چینی کمپنیوں کو سرمائے تک رسائی، کاروباری اجازت ناموں کے حصول، ٹھیکوں کی بولی اور وسائل پر تصرف میں ناجائز فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

اس کے برعکس عام طور پر امریکی حکومت اہمیت کے حامل کاروباروں میں فریق نہیں بنتی اور مقامی و غیرملکی کاروبار میں فرق روا نہیں رکھتی۔ اس کے ہاں سرمائے کی ایک موثر اور خود کار نجی منڈی  ہے۔

جیسا کہ ان درجہ بندیوں سے ظاہر ہوتا ہے چین کو دوبارہ حقیقی منڈی کی معیشت کے راستے پر ڈالنے والی اصلاحات ناصرف پوری دنیا کے لیے بہتر ہوں گی بلکہ اس سے خود چین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔