مونٹانا کینی کی اس سال سکول کی چھٹیاں خاصی سنسنی خیز ثابت ہوئیں۔ تنزانیہ کے کوہِ کلی منجارو کو سر کرنے والی اس سات سالہ لڑکی نے اس پہاڑ کو سر کرنے والی کم عمر ترین لڑکی کا اعزاز حاصل کرلیا۔
افریقہ کے 5895 میٹر بلند اس سب سے سے اونچے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنا مارچ میں سکول کی چھٹیوں کے دوران مونٹانا کا پراجیکٹ تھا۔ اس مہم کی بدولت اسے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دریافت کرنے اور کوہ پیمائی کے ساتھ ساتھ دوسری ثقافتوں کے بارے میں سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
ٹیکسس سے تعلق رکھنے والی مونٹانا کے ہمراہ اُن کی والدہ ہولی کینی بھی تھیں۔
ہولی کینی اس مہم کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، “میری بہن نے مجھ سے پوچھا کہ آیا میں اس کے ساتھ کلی منجارو سر کرنا پسند کروں گی۔ جب ہم نے اس مہم کی منصوبہ بندی شروع کی تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی۔ تب میں نے چند دوستوں سے پوچھا کہ آیا وہ اس مہم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے میں مونٹانا آگے آئی اور بولی، ‘ماں، میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔’ ”
مونٹانا نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی بھی خواہش مند تھی۔ اُن کے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی تھی جن کا انتقال اس وقت ہوا تھا جب مونٹانا کی عمر تین برس تھی۔
اس کا کہنا ہے، “میں جانتی تھی جنت کوہِ کلی منجارو سے زیادہ اوپر نہیں۔ اس لیے میری خواہش تھی کہ میں یہ مہم سر کروں۔”
انہیں چوٹی تک پہنچنے میں چھ دن لگے۔

چوٹی پر آمد
چوٹی پر پہنچ کر مونٹانا نے جو کیا اسے دیکھ کر کینی بے حد جذباتی ہو گئی۔
کینی کہتی ہیں، “مونٹانا کو آسمان کی جانب منہ کر کے اپنے والد کے بوسے لیتے ہوئے دیکھنا، یہ جاننا کہ وہ جنت میں اپنے والد سے اتنا قریب ہے جتنا کہ ممکن ہو سکتا ہے، ایک ماں کے لیے انتہائی اہم تھا۔”
اس موقع پر مونٹانا تھکن سے چور ہونے کے باوجود اپنی کامیابی پر انتہائی خوش تھی۔
مونٹانا بتاتی ہے، “یہ میرے لیے انتہائی طویل سفر تھا۔ میں حقیقی معنوں میں جذباتی ہوچکی تھی مگر میں یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ ہمیں نیچے کی جانب کب جانا ہوگا۔ مجھے خوشی تھی میں نے ایسا کیا مگر میں نیچے نہیں جانا چاہتی تھی۔”
چوٹی سے آگے
کلی منجارو کی چوٹی پر پہنچنے اور عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے علاوہ اس دورے میں وہ نئی ثقافتوں سے بھی روشناس ہوئیں۔
کینی کا کہنا ہے، “جب ہم پہاڑ پر تھے تو ہم نے ناصرف نت نئے کھانوں سے لطف اٹھایا بلکہ اس کے بعد ہم دو سفاریوں پر بھی گئے۔ ہم زنجیبار گئے۔ ہم ایک قصبے میں ٹھہرے جہاں ہم نے تنزانیہ کے لوگوں کا رہن سہن دیکھا۔ ہم ان کے مقامی بازار میں گئے اور بہت سے دکانداروں سے ملے۔ ہم نے بہت سے خاندانوں سے ملاقاتیں کیں اور یہ سب کچھ نہایت دلچسپ تھا۔ اس قصبے میں رہنے والے بچے میری بیٹی سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور ہم بہت لطف اندوز ہوئے۔”
یہ مضمون وائس آف امریکہ میں شائع ہونے والے ایک طویل مضمون کاخلاصہ ہے۔