کمپیوٹروں کے استعمال سے پہلے، اس خاتون نے ناسا کے سب سے بڑی کامیابی کا حساب لگایا

اگر آپ کے پاس کمپیوٹر نہ ہوتا، تو کیا آپ کسی راکٹ کو خلا میں بھیج کر اسے واپس لا سکتے تھے؟ کیتھرائن جانسن نے یہ کام کیا۔ وہ  اپنے غیرمعمولی ذہن کی بدولت جس میں ریاضی کی بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں، ریاست ویسٹ ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے نکل کر ناسا پہنچ گئیں، جہاں انھوں نے انسان کو چاند پر قدم رکھنے میں مدد دی۔

ہو سکتا ہے کہ آپ نے جانسن کا نام نہ سنا ہو، لیکن قوی امکان یہ ہے کہ آپ ان کا نام جلد ہی سن لیں گے۔ امریکہ کے خلائی پروگرام کی اس گمنام افریقی نژاد امریکی عظیم ہیروئن کی کہانی اگلے سال کے شروع میں سنیما کے پردوں پر دکھائی جائے گی۔

یہ فلم عنقریب شائع ہونے والی کتاب Hidden Figures کی بنیاد پر بنائی جا رہی ہے۔ اس کتاب کی  مصنفہ مارگوٹ لی شیٹرلی   کہتی ہیں “بیشتر امریکیوں کو اندازہ نہیں کہ 1940 کی دہائی سے لے کر 1960 کی دہائی تک، افریقی نژاد امریکی عورتوں کی ایک چھوٹی سی تربیت یا فتہ جماعت ملک کے خلائی پروگرام میں کام کرنے والے کارکنوں میں شامل رہی ہے۔”

جانسن نے شماریات کا جو کام کیا، وہ  مرکری سے لے کر اپالو اور خلائی شٹل تک، خلائی پرواز کے ہر بڑے پروگرام کی  بنیاد بنا۔ وہ 1986ء میں ریٹائر ہوئیں۔

اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر

جانسن ہمیشہ اپنی کلاس سے آگے نکلتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ 10 برس کی عمر میں انھوں نے سیکنڈری سکول شروع کیا۔ جب انھوں نے  ویسٹ ورجینیا سٹیٹ کالج کے ریاضی کے تمام ایڈوانس کورس مکمل کر لیے، تو پروفیسروں نے ان کے لیے نئے کورس بنائے۔ انھوں نے 18 برس کی عمر میں اپنی کالج کی تعلیم مکمل کر لی۔

ایک مختصر مدت کے لیے سکول ٹیچر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد، انہیں اُس ادارے میں بطور “کمپیوٹر” یعنی جمع تفریق کرنے والے شخص کا کام مِل گیا، جو بعد میں ناسا بنا۔ اس ادارے میں جانسن کا کام یہ تھا کہ وہ تمام دن دوسرے انجینیئروں کے فارمولوں میں اعداد و شمار درج کرتی رہیں۔ لیکن ریاضی میں ان کی مہارتیں اور اندازِ فکر اتنا اعلیٰ تھا کہ وہ جلد ہی ناگزیر بن گئیں۔ مردوں پر مشتمل خلائی پرواز کے تحقیقی گروپ نے ان کی خدمات حاصل کرنے کے لیے درخواست کی۔

Katherine Johnson sitting in chair (NASA)
97 سالہ کیتھرائن جانسن نے مریخ سے لے کر خلائی شٹل تک، ناسا کے ہر بڑَے خلائی پروگرام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ (NASA)

ان کا کام ہمیشہ آسان نہیں تھا۔ انہیں بتایا جاتا تھا کہ عورتیں انجنیئروں اور خلائی تحقیق کرنے والوں کے ساتھ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں نہیں بیٹھ سکتیں۔ لیکن جانسن نے اس پالیسی پر اعتراض کیا، اور میز پر اپنے لیے جگہ حاصل کر لی۔

جانسن نے جو حساب لگایا اس سے1961ء میں خلا میں جاںے والے پہلے امریکی، ایلن شیپرڈ کی پرواز کی خلائی راہ متعین کی گئی۔ ان کی شہرت اتنی زیادہ تھی کہ جب جان گلین 1962ء میں مدار میں اپنی پہلی پرواز کی تیاری کر رہے تھے، تو انہوں نے ناسا کے نئے الیکٹرانک کمپیوٹروں پر بھروسہ نہیں کیا اور  درخواست کی کہ جانسن اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کریں۔

President Obama talking with seated Katherine Johnson (© AP Images)
صدر اوباما کیتھرائن جانسن کو صدارتی میڈل آف فریڈم عطا کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

جانسن نے کہا کہ ان کے لیے سب سے زیادہ قابلِ فخر کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اپالو 11 کے چھوڑے جانے کے وقت کا تعین کیا۔ جانسن نے کہا کہ دنیا جس وقت 20 جولائی کو نیل آرمسٹرانگ کو چاند پر پہلا قدم رکھتے ہوئے دیکھ رہی تھی، “اُس دوران ہماری اصل تشویش یہ تھی کہ وہ چاند سے واپسی کا سفر کب شروع کریں گے۔ انہیں ٹھیک اسی وقت واپسی کا سفر شروع کرنا تھا جو ہم نے بتایا تھا۔ اگر وہ اس سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے ہو جاتے، تو وہ مدار میں واپس نہیں جا سکتے تھے۔”

“میری نظریں ٹیلیویژن پر جمی ہوئی تھیں، اور میں نے کہا، ‘امید یہی کرنی چاہیے کہ انھوں نے میری بات سمجھ لی ہے۔’ اور پھر انھوں نے ہنستے ہوئے کہا، ” اورمیں وہاں بیٹھی ہوئی  یہ امید کر رہی تھی، کہ میں نے جو حساب لگایا ہے وہ بھی صحیح ہے۔”

صدر اوباما کے 97 سالہ جانسن کو صدارتی میڈل آف فریڈم دینے کی تقریب کے موقع پر  ناسا نے کہا: “ویسٹ ورجینیا کی ایک چھوٹی سی لڑکی کے لیے، یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے، اور یہ محض اتفاق ہے (یا شاید ایسا نہ ہو)، کہ وہ 26 اگست کو پیدا ہوئی تھیں: جو عورتوں کی مساوات کا دن ہے۔”