کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ تعلیمی اداروں کے کیمپسوں پر چینی پراپیگنڈے کو پروان چڑہاتے ہیں

پردوں کے سامنے اور ہتھوڑے اور درانتی کے نشان کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ (© Ng Han Guan/AP Images)
بیرونی ممالک میں اثرونفوذ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والا، چینی کمیونسٹ پارٹی کا یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈیپارٹمنٹ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کو ہدایات دیتا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے کیمپسوں پر چلائے جاتے ہیں۔ (© Ng Han Guan/AP Images)

عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کو امریکی کالجوں/یونیورسٹیوں کے کیمپسوں پر کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کی سرگرمیوں میں مدد کرنے میں اپنے کردار کے بارے میں اب زیادہ کچھ بتانا پڑے گا۔ اِن سرگرمیوں میں پراپیگنڈہ اور سنسرشپ بھی شامل ہے۔

13 اگست کو امریکی محکمہ خارجہ نے واشنگٹن میں قائم کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈکوارٹر کے نیٹ ورک کو عوامی جمہوریہ چین کے ایک غیرملکی مشن کی حیثیت سے نامزد کر دیا ہے۔

اس نامزدگی کے بعد، ‘کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ یو ایس سنٹر’ (کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے امریکی مرکز) کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ یہ باقاعدگی سے محکمہ خارجہ کو امریکہ میں اپنے ایک درجن انسٹی ٹیوٹوں کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرے۔ اس سلسلے میں اسے پی آر سی کے شہری ملازموں، اُن کی بھرتیوں اور سرگرمیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔

بہتر شفافیت کے بعد، تعلیمی ادارے اپنے کیمپسوں پر ڈالے جانے والے دباؤ سے متعلق زیادہ بہتر انتخاب کر سکتے ہیں۔ پھر وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا بیجنگ کے حمایت یافتہ یہ پروگرام اپنے طلبا کو پڑہانا جاری رکھ سکتے ہیں اور اگر جاری رکھ سکتے ہیں تو کیسے پڑہائیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 13 اگست کو اس نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا، “پی آر سی نے  بڑے پیمانے پر اور اچھی خاصی مالی مدد  کے ساتھ کی جانے والی  پراپیگنڈے کی کوششوں اور اس ملک کے کاموں پر اثرانداز ہونے کے لیے امریکہ کے کھلے پن کا فائدہ اٹھایا ہے۔

حقوق سے متعلق گروپوں اور امریکی حکومت کے مطابق، گو کہ یہ انسٹی ٹیوٹ اپنے آپ کو چینی ثقافت کے مراکز کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر یہ چین کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان پر نظریں بھی رکھتے ہیں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) دنیا بھر میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہے۔ اِن میں سے 75 امریکہ میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے 66 امریکی کالجوں کے کیمپسوں پر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ 500 سے زائد پروگرام امریکی پرائمری اور ثانوی سکولوں کی کلاسوں میں بھی چلائے جا رہے ہیں۔

امریکی سینیٹ کی ایک تفتیش اور حقوق سے متعلق گروپوں کو پتہ چلا ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ سیاسی طور پر حساس موضوعات سے متعلق تعلیمی مواد کو سنسر کر کے اور نصابی آزادی پر سمجھوتہ کر کے، سی سی پی کے ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپ، ‘ہیومن رائٹس واچ’ کی چین کی ڈائریکٹر، سوفی رچرڈسن نے کہا، “یہ وہ انسٹی ٹیوٹ ہیں جن کے نصابوں کا فیصلہ ایک آمرانہ حکومت کرتی ہے۔” رچرڈسن نے مزید کہا کہ ملازمتیں دینے کے فیصلوں کی جزوی بنیاد پارٹی کے ساتھ وفاداری ہوتی ہے۔

اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ پی آر سی کا ‘یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈیپارٹمنٹ’ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کی سرگرمیوں پر اثر ہونے میں بھرپور طریقے سے شامل ہوتا ہے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ سی سی پی کی بیرونی ممالک کی سرگرمیوں پر گہرا اثرونفوذ رکھتا ہے۔ سی سی پی کے ایک سابقہ نظریاتی کرتا دھرتا، لی چانگچن نے 2009ء میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کو “چین کے بیرونی ممالک میں پروپیگنڈہ کے نظام کا ایک اہم جزو” قرار دیا تھا۔

2018ء میں، امریکہ میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں نے جارجیا کی ایک یونیورسٹی پر ایک مقرر کی سوانح حیات کو اس لیے سنسر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا کیونکہ اس صحافی کو تائیوان میں صحافی کے طور پر کام کرنے کا تجربہ حاصل تھا۔ سی سی پی تائیوان اور دیگر بہت سے موضوعات کو سیاسی طور پر حساس سمجھتی ہے۔

دنیا بھر کی یونیورسٹیاں سی سی پی کی مداخلت سے تنگ آچکی ہیں اور کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کے پروگراموں کا زیادہ تنقیدی انداز سے جائزہ لے رہی ہیں۔ امریکی نامزدگی کے بارے میں محکمہ خارجہ کے ایک حقیقت نامے کے مطابق، سویڈن، جرمنی، بھارت اور دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں نے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کو یا تو بند کردیا ہے یا اُن سے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔