کنگ امریکہ کو اس کے کمال کے قریب سے قریب تر کیسے لائے

ساٹھ سال قبل 28 اگست 1963 کو تقدس مآب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک تقریر کی جس نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں شہری حقوق کے قانون کی تیز رفتارمنظوری میں مدد کی۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر گرجا گھر میں کھڑے کچھ لکھ رہے ہیں (© Morton Broffman/Getty Images)
کِنگ کے اندازِ خطابت پر اِن کی عیسائیت کے دینی عالم ہونے کی چھاپ تھی۔ اس تصویر میں کنگ 31 دسمبر 1968 کو اپنے خطبے کی تیاری کر رہے ہیں جس میں انہوں نے غرباء کی طرف سے نیشنل کیتھیڈرل میں موجود عبادت گزاروں سے اپیل کی۔ بعد میں یہ اُن کی زندگی کا آخری خطبہ ثابت ہوا۔ (© Morton Broffman/Getty Images)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کنگ کے الفاظ پر اب وقت کی گرد کی ایک تہہ بیٹھ گئی ہے اور “نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی بیڑیوں اور امتیازی سلوک کی زنجیروں” کے متعلق سخت الفاظ کا شمار اُن جملوں میں نہیں ہوتا جو زیادہ تر امریکیوں کو یاد ہیں۔

کنگ نے اِن الفاظ کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ مگر یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے اور ان الفاظ نے اس تقریر کو امریکہ کی عظیم ترین تقریروں میں شامل کر دیا۔

واشنگٹن کی جانب ملازمتوں اور آزادی کے لیے مارچ میں کنگ کا منصوبہ قوم کے سامنے تب کا ایک بنیاد پرستی پر مبنی چیلنج رکھنا تھا۔ جوناتھن آئیگ “کنگ: اے لائف” کے عنوان سے اس سال شائع ہونے والی کنگ کی سوانح عمری کے مصنف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کِنگ کی لکھی ہوئی تقریر میں امریکیوں سے اپنے آئین میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے اور سیاہ فام شہریوں کو برابری کی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کِنگ نے اس دن 250,000 افراد کے سامنے بہت سے مقررین کے بعد سب سے آخر میں تقریر کرنا تھی۔ لنکن کی یادگار کے سامنے وسیع و عریض قطعہ زمین لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔  لوگوں کی تھکاوٹ کے باوجود کنگ نے اپنے مقررہ وقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تقریر جاری رکھی۔ بپٹسٹ پادری ہونے کے ناطے وہ آسانی سے فی البدیہہ تقریر کر سکتے تھے۔

آئیگ کہتے ہیں کہ جیسے ہی کنگ سنگ مرمر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوئے تو انہوں نے “مجمعے کو چرچ لے جانے” کا فیصلہ کیا۔ اپنی تقریر میں غیرتیار شدہ پیرے شامل کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسے متاثر کن بیانیے کا آغاز کیا جس کا تعلق امریکہ کے اپنے کمال کی بلندیوں پر پہنچنے کی صلاحیت سے تھا۔ اس کے بعد کے بیتے برسوں میں امریکیوں نے [کنگ] کے الفاظ کا ایک تقریر کے طور پر حوالہ دینا شروع کیا جس کو انہوں نے “میرا ایک خواب ہے” کا نام دیا۔

شہری حقوق کے اِس رہنما نے بہت سے بار بار دہرائے جانے والے مساوات کے بارے میں اپنے خوابوں میں شامل ایک خواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “میرا ایک خواب ہے کہ میرے چار چھوٹے بچے ایک دن ایک ایسی قوم میں رہیں گے جہاں انہیں اِن کی جلد کی رنگت سے نہیں بلکہ اِن کے کرداروں کے حوالے سے پرکھا جائے گا۔”

کنگ نے اس سے پہلے کی دو تقاریر میں بھی اسی طرح کے “خواب” کا پیغام استعمال کیا تھا۔ مگر اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ مجمعے میں موجود لوگوں پر اِس کا اثر صاف دکھائی دے رہا تھا اور پوری قوم یہ تقریر ٹیلی ویژن پر دیکھ رہی تھی۔

Black Men Are Precious یعنی “سیاہ فام لوگ بھی قیمتی ہوتے ہیں” کے عنوان سے گانوں کا البم تیار کرنے والے اور گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے شاعر اور یاد داشت نگار، ای ایتھلبرٹ ملر کہتے ہیں کہ کنگ کی عوامی تقاریر میں موسیقی کی سیاہ فام مذہبی گیتوں اور المیہ صنفوں سے تکرار اور تجنیسِ حرفی کی تکنیکیں مستعار لی گئی تھیں جن کی جڑیں بذات خود افریقی داستان گوئی کی روایات میں پیوست ہیں۔ دوسرے کرشماتی سیاہ فام مبلغین کی طرح کنگ نے مجمعے کو جوش دلانے کے لیے “بلانے اور جواب دینے” کی تکنیکوں کا استعمال کیا جن کے تحت وہ تحریر شدہ متن پڑھنے اور اپنا سر اور اپنی آواز بلند کرنے کی تکنیک استعمال کرتے تھے۔

ملر کا کہنا ہے کہ “میرا ایک خواب ہے” اور “آزادی کو گونجنے دو” کی تکرار ان کی شاعری کو یاد رکھنا آسان بناتی ہے۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سمیت لوگوں کے ایک گروپ کے درمیان کھڑی ایک عورت گا رہی ہے۔ (© Bob Parent/Getty Images)
واشنگٹن پر ملازمتوں اور آزادی کے لیے کیے جانے والے مارچ کے دوران مہالیا جیکسن لنکن کی یادگار پر گا رہی ہیں اور قریب ہی بیٹھے اور مسکراتے ہوئے کنگ آگے کو جھک کر جیکسن کو دیکھ رہے ہیں (© Bob Parent/Getty Images)

اس تقریر کا شمار بیسویں کی مشہور تقریروں میں ہوتا ہے اور یہ امریکی ثقافت  کی اساس بن چکی ہے۔ گو کہ کنگ نے اپنے بعض جذبات کا اظہار بغیر کسی تیاری کے کیا مگر انہوں نے اپنے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لیا۔ آئیگ کہتے ہیں کہ “‘ میرا ایک خواب ہے’ [نامی تقریر] اُس امریکی خواب سے جوڑتی ہے جو کہ اس ملک کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ حب الوطنی کی بات کرتے ہیں۔ وہ مذہبی عقیدے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بہترین جبلتوں کی بات کرتے ہیں۔”

ملر کا کہنا ہے کہ کنگ نے شاعر لینگسٹن ہیوز کے التوا میں پڑے خواب کے خیال کو بھی استعمال کیا۔

کچھ لوگ کِنگ کے ساتھ سٹیج پر اُس روز موجود گلوکارہ مہالیا جیکسن کو یہ اعزاز دیتے ہیں کہ انہوں نے کنگ کو “خواب کے بارے میں بات کرنے” کی ترغیب دی۔  (یہ ممکن ہے کہ جیکسن نے پہلے ہی سے [کنگ] کو اپنے خواب کا حوالہ دیتے ہوئے سن رکھا ہو۔) تاہم آئیگ نے ریکارڈ درست کر دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گو کہ جیکسن نے سٹیج پر کنگ کو تقریر کرنے کی دعوت دی مگر کنگ نے پہلے ہی سے اس میں بہتریاں لانا شروع کر دی تھی۔

یہ پہلا موقع تھا جب بہت سے سفید فام امریکیوں نے ایک سیاہ فام مبلغ کی طاقت کے بارے میں سنا۔ اس کے بعد جب کنگ وائٹ ہاؤس میں صدر جان ایف کینیڈی سے ملنے گئے تو صدر واضح طور پر متاثر دکھائی دیئے اور انہوں نے کنگ کے پیچھے “میرا ایک خواب ہے” کے جملے کو دہرایا۔

آئیگ کہتے ہیں کہ “بہت سے لوگوں کے دل کو یہ باتیں لگیں کیونکہ ٹیلی ویژن پر لوگ سیاہ فاموں اور سفید فاموں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ اس خوبصورت منظر پر مستزاد یہ کہ کنگ کی تقریر نے حقیقی معنوں میں ایک ایسا تصور پیش کیا جو امریکہ میں سب کچھ ممکن ہونے کے بارے میں تھا۔”

صدر کینیڈی اور دیگر افراد کھڑے مسکرا رہے ہیں (© Three Lions/Hulton Archive/Getty Images)
صدر جان ایف کینیڈی 28 اگست 1963 کو وائٹ ہاؤس میں واشنگٹن پر ملازمتوں اور آزادی کے لیے مارچ کے رہنماؤں کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ بائیں سے دائیں: کنگ، جان لیوس، ربائی یواکم پرنز، تقدس مآب یوجین کارسن بلیک، اے فلپ رینڈولف، کینیڈی والٹر ریوتھر اور رائے ولکنز۔ ریوتھر کے پیچھے نائب صدر لنڈن جانسن کھڑے ہیں۔ (© Three Lions/Hulton Archive/Getty Images)

آئیگ بتاتے ہیں کہ آج تعصب سے پاک زندگی گزارنے کے ایک متاثرکن خاکے کے طور پر سکول کے بچوں کو اس تقریر کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس تقریر کے اختتام میں جمہوریت کا وعدہ کرنے والی آزادی کی تعریف کی گئی  ہے اور امریکہ کی بعض متنوع نسلوں اور مذہبی گروہوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ذیل میں دیئے گئے اس اختتامیے کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے:.

جب ہم آزادی کو گونجنے دیں گے

جب ہم اسے ہر گاؤں اور ہر بستی، ہر ریاست

اور ہر شہر میں گونجنے دیں گے

تو پھر ہم اُس دن کے ظہور کو تیز تر کرنے کے قابل ہو جائیں گے

جب خدا کے تمام بچے، سیاہ فام اور سفید فام مرد،

 یہودی و غیریہودی، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک،

ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے

ایک سیاہ فام بزرگ کے مذہبی گیت کے یہ الفاظ گائئیں گےا:

بالاخر میں آزاد ہوں! بالاخر میں آزاد ہوں!

خداوند تعالٰی کا شکر ہے کہ ہم آخر کار آزاد ہیں۔

ملر کہتے ہیں کہ اب ساٹھ برس بعد کنگ کی سالگرہ پر قومی تعطیل ہوتی ہے اور “وہ اتنے ہی اہم ہیں جتنے کے امریکہ کے بانی آبا و اجداد ہیں۔”