2014 میں پرواز سے متعلقہ بکنگ معلومات کے ایک معمول کے جائزے کے دوران امریکی کسٹم حکام کو کچھ شک محسوس ہوا۔ ایک یمنی شہری سعودی عرب سے واشنگٹن سفر کررہا تھا اور اس کے فون نمبر اور ای میل ایڈریس سے اس کے ایک مشتبہ دہشت گرد کے ساتھ رابطوں کا پتہ چلا۔ تفصیلی تفتیش سے اس شک کی تصدیق ہوگئی۔
بعد ازاں محکمہ خارجہ نے مسافر کا ویزا منسوخ کر دیا اور ائیر لائن نے اسے جہاز پر چڑھنے سے روک دیا۔ اس طرح کی معلومات دہشت گردوں کو سرحدیں پار کرنے سے روکنے کی عالمی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے رابطہ کار، نیتھن سیلز نے کہا، “ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے سے پہلے ہی روک دیں۔”
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر مذاکرات کی قیادت کی تھی جس کے تحت اقوام متحدہ کے تمام 193 ممالک کے لیے ضروری قرار پایا کہ وہ فنگر پرنٹوں یعنی انگلیوں کے نشانوں سمیت تمام معلومات اکٹھی کریں۔ یہ قرارداد رکن ممالک کو دہشتگردوں کو جہاز پر سوار ہونے اور سرحدیں پار کرنے سے روکنے اور پکڑے جانے سے بچنے کے لیے پیچیدہ راستوں کے استعمال سے متعلق معلومات میں دوسرے ممالک کو شریک کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ نیتھن سیلز نے مزید کہا کہ باہمی اشتراک کا یہ طریقہ ملکوں کو دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے نئے وسائل مہیا کرتا ہے”۔ یہ قرارداد یو این ایس سی آر 2396 کے طور پر جانی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے لیے مندرجہ ذیل مخصوص معلومات مہیا/مرتب کرنا ضروری ہیں:
- دہشت گردوں کی نشاندہی کے لیے فنگر پرنٹوں جیسا “بائیو میٹرک” ڈیٹا اکٹھا کرنا۔
- جانے پہچانے اور مشکوک دہشتگردوں کی واچ لسٹیں یا ڈیٹا بیس مرتب کرنا۔
- نام، فون نمبروں اور سفری تفصیلات سمیت ایئر لائن ریزرویشن کی معلومات کا استعمال کرتے ہوئے نامعلوم دہشتگردوں کی نشاندہی کرنا۔
امریکہ میں اِن ذرائع کا استعمال کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر فنگرپرنٹوں کے بارے میں معلومات مہیا کرکے امریکہ 2017ء میں 134 ایسے جانے پہچانے یا مشتبہ دہشتگردوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہا جو دوسرے ممالک کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔
نیتھن سیلز کے مطابق اس جدید نظام کی عالمی سطح پر کامیابی کے لیے بین الاقوامی ربط و ضبط اور ہم آہنگی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم مثال 2014ء میں بہت واضح طور پر اس وقت سامنے آئی جب ایک امریکی اتحادی نے سری لنکا کے اُس شہری کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹوں کے حصول کی درخواست کی جس نے اُس ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔ امریکہ کو پتہ چلا کہ یہ فنگر پرنٹ ایک جانے پہچانے یا مشتبہ دہشت گرد سے مماثلت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً اس شخص کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
نیتھن سیلز نے اس سال کے اوائل میں کہا، “جنگ کے منجھے ہوئے دہشت گرد واپس گھروں کو لوٹ رہے ہیں یا پھر تیسرے ملکوں میں جا کر تباہی اور فساد برپا کر رہے ہیں۔” میدان جنگ میں فوجی داعش کے محفوظ ٹھکانوں، نہ پھٹنے والی باردوی سرنگوں، اور گرفتار شدہ جنگجوؤں کی انگلیوں کے نشانات سے بائیو میٹرک معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ ان معلومات کی مدد سے جانے پہچانے یا مشتبہ دہشتگردوں کو سفر کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
نیتھن سیلز نے “اُن تمام رکاوٹوں کو دور کرنے” پر زور دیا جو “حکام کوایک دوسرے کے ساتھ انسداد دہشتگردی سے متعلق معلومات کے تبادلے سے روکتی ہیں۔” انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے ان تمام شراکت کاروں کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے جن کے پاس اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عمل کرنے کے لیے وسائل یا صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
اُن کا کہنا ہے، “ہمارے مخالفین، ہمارے دشمن روز بروز جدید طریقے اختیار کر رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی نسبت بہرصورت تیزی سے جدت اختیار کرنا چاہیے۔”