نئے کورونا وائرس کی وبا کے سبب دنیا بھر میں فیکٹریاں اپنی پیداوار سست یا بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ پیداوار میں یہ کمی اُن ترسیلی سلسلوں میں خلل پیدا کر رہی ہے جو پوری دنیا کے ممالک کو دواؤں سے لے کر لہسن اور جرابوں تک ہر چیز مہیا کرتے ہیں۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے اس مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس دور میں اشیا کی فراہمی کے سلسلے خاطرخواہ حد تک متنوع نہیں ہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹشن میں عالمگیر معیشت اور ترقیاتی پروگرام کے فیلو جیفری گیرٹز کہتے ہیں، ”بہت سی اشیا کی پیداوار کسی ایک ملک، بعض اوقات ایک شہر یا ایک ہی کمپنی تک محدود ہوتی ہے اور اس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ چین کے معاملے میں ہم یقینی طور یہ دیکھ رہے ہیں۔ (موجودہ) وباء اشیا کی رسد کے سلسلوں میں لچک پیدا کرنے میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت سامنے لا رہی ہے۔”
میسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اشیا کی فراہمی کے انتظامی معاملات کے ماہر ڈیوڈ سمچی۔لیوائی وضاحت کرتے ہیں کہ آج کی قلتوں کے پیچھے کئی سال پہلے لاگتوں میں جارحانہ کمی کی حکمت عملی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا، “کمپنیاں لاگتوں میں کمی کرنے میں تو کامیاب رہیں مگر اس طرح وہ نمایاں طور سے خطرات کی زد میں آ گئیں۔ اگر ایسا مسئلہ سامنے آیا جیسا کہ ہم گزشتہ [کئی ایک] ہفتوں میں دیکھ چکے ہیں تو پھر ترسیلی سلسلے میں بڑے پیمانے پر رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گیں۔”

سمچی۔لیوائی بتاتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں بہت بڑی تعداد میں کمپنیوں نے اپنے کاروبار ایشیا، خصوصاً چین میں منتقل کر دیے۔ ان کا کہنا ہے، ”ایسے میں وہ صرف لاگتوں میں کمی کے طریقوں پر غور کر رہی تھیں اور انہوں نے اس کے منفی اثرات جیسا کہ اشیا کی تیاری اور ترسیل کے دورانیے، بڑھتا ہوا تجارتی اتار چڑھاؤ اور ترسیلی سلسلے میں بڑھتے ہوتے خدشات کو مدنظر نہیں رکھا۔
سمچی۔لیوائی بتاتے ہیں دنیا کے ساتھ چین کی تجارت میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ 2002 میں سارز وباء کے دوران عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 4.3 فیصد تھا۔ آج اس میں چین کا حصہ 16 فیصد ہے۔
اشیا کی فراہمی کے سرچشموں کی نقشہ کشی
گیرٹز کہتے ہیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ”ترسیلی سلسلے مجموعی طور پر مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے پیداواری عمل کے لیے درمیانے فراہم کنندگان پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے لگی ہے۔”
کاروبار سے متعلق اشاعتی ادارے کپلنگر سے وابستہ ماہر معاشیات ڈیوڈ پین بتاتے ہیں کہ ترسیلی سلسلوں کے نقائص محض چین تک ہی محدود نہیں ہیں۔ وہ چینی کپڑے کی کمی کے باعث کمبوڈیا کی ملبوسات ساز فیکٹریاں بند ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ”جنوب مشرقی ایشیا سے پُرزے یا مال منگوانے والے کاروبار اس لیے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ انہیں اشیا فراہم کرنے والوں کا انحصار چینی خام مال پر تھا۔”
سمچی۔لیوائی کے مطابق دنیا بھر کی کمپنیوں کو ترسیلی سلسلے کی نقشہ کشی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ”انہیں ناصرف اپنے فراہم کنندگان کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں اپنے فراہم کنندگانوں کے فراہم کنند گانوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔”
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنیوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں، “یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ انہیں اشیا فراہم کرنے والوں کے پاس مختلف خطوں میں بہت سی صنعتی سہولیات موجود ہوں یا پھر کمپنیوں کو اشیا کے حصول کے لیے بہت سے فراہم کنندگان سے رابطہ رکھنا ہو گا تاکہ کسی ایک جگہ سے مطلوبہ چیز نہ ملے تو دوسری جگہ سے حاصل کی جا سکے۔ بصورت دیگر کمپنیوں کو معمول سے زیادہ مال ذخیرہ کرنا ہو گا۔”
گیرٹز بتاتے ہیں کہ جاپان میں 2011 کے زلزلے اور سونامی کے بعد جب اشیاء کی قلت پیدا ہوئی تو ترسیلی سلسلوں کو مزید لچک دار بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ مگر یہ کوششیں عارضی نوعیت کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے، ”یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ ہم صرف اسی وقت ان کمزوریوں کا ادراک کرتے ہیں جب ہمیں اِن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمومی حالات میں ہم لچک پر مستعدی کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور پھر ہمیں بار بار یہی سبق سیکھنا پڑتا ہے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ ہم فوری بحران پر تو ردعمل ظاہر کرتے ہیں مگر مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔”

سمچی۔لیوائی کا خیال ہے اس مرتبہ صورتحال مختلف ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ تجارتی تناؤ نے پہلے ہی کمپنیوں کو ترسیلی سلسلوں کے بارے میں ازسرنو غور پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”اس عالمگیر وباء کے ہوتے ہوئے اس رجحان میں تیزی آئے گی۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ آج سے 10 سال بعد ترسیلی سلسلے کیسے ہوں گے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ساخت اس سے بے حد مختلف ہو گی جو ہم گزشتہ پانچ سے 10 برسوں میں دیکھتے چلے آئے ہیں۔”
وہ کہتے ہیں تنوع “[خطرے] کی تخفیف کا ایک لازمی حصہ ہوگا۔”
یہ مضمون فری لانس لکھاری لنڈا وانگ نے تحریر کیا۔