نائب صدر پینس نے کہا ہے کہ امریکہ نے شہریوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے ”ِ مجموعی امریکی سوچ” اپنائی ہے جس میں وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ نجی کاروبار بھی شامل ہیں۔ یہ سب مل کر اس بیماری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ”کوویڈ۔19” (COVID-19) سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے مشترکہ طریقہ کار کو مزید موثر بنانے کے لیے 6 مارچ کو 8.3 ارب ڈالر کی وفاقی فنڈنگ کا قانون منظور کیا۔ اس اقدام کے تحت ویکسین، طبی معائنے اور بیماری کے ممکنہ علاج اور اس ضمن میں دیگر کوششوں کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جائیں گے۔
4 مارچ کو نائب صدر پینس نے کہا، ”ہم اس بحران پر قابو پانے کے لیے تمام وسائل اور حکومت کے ہر ادارے سے کام لینا جاری رکھیں گے۔”
وفاقی ادارے اس بیماری کے خلاف حکومت کی ہر سطح پر رہنمائی کر رہے ہیں جب کہ کیلی فورنیا اور واشنگٹن سمیت سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں کے گورنر طبی عملے اور دیگر لوگوں کے لیے نئے موثر حفاظی انتظامات پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
نائب صدر پینس نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طبی معائنے کی دستیابی کی رفتار بڑھانے اور جانچ پڑتال بہتر بنانے کے لیے بے مثل اقدامات کیے ہیں۔ صنعتی شعبے کے ساتھ ملاقاتوں میں، ٹرمپ اور پینس بیماری کے خلاف نجی شعبے کے پہلے سے مضبوط ردعمل کو مربوط کر رہے ہیں۔
نائب صدر پینس کے بیان کردہ ”امریکہ کی بحیثیتِ مجموعی سوچ” کی چند مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:
- وفاقی ادارے: امریکی محکمے صحت و انسانی خدمات اور بیماریوں پر قابو پانے اور روک تھام کے مراکز نے ریاستی اور مقامی حکومتوں کو لاکھوں ڈالر منتقل کیے ہیں۔ ان اداروں نے بیماری سے بری طرح متاثرہ جگہوں پر طبی سازوسامان، تجربہ گاہوں کے لیے درکار سامان، عملے میں اضافے اور دیگر حفاظتی اقدامات کے لیے ابتدائی طور پر 25 ملین ڈالر دیئے ہیں۔ وفاقی فنڈنگ سے مزید 10 ملین ڈالر کے ذریعے ملک بھر میں ریاستی و مقامی حکومتوں کو بیماری کے نئے مریضوں کی نشاندہی کے لیے مدد دی جا رہی ہے۔ ایچ ایچ ایس کے سیکرٹری ایلکس ایزر نے4 مارچ کو کہا کہ ”ریاستی و مقامی حکومتیں صحت عامہ کے نظام میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔”
- ریاستی و مقامی حکومتیں: جن ریاستوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہے انہوں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جس کی بدولت حکام صحت عامہ کے حوالے سے کڑے حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان سے صارفین کو کھانے پینے کی چیزوں، گیس اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحفظ ملا ہے اور طبی عملے کے لیے دوسری ریاستوں سے آ کر مدد کرنا ممکن ہوا ہے۔ ریاست واشنگٹن کے ریاستی حکام نے طبی عملے کے تمام افراد کے لیے معاوضہِ تلافی کو یقینی بنایا ہے۔ گورنر جے انسلی نے 5 مارچ کو کہا، ”طبی عملے کے یہ ارکان اور وبا میں سب سے پہلے ردعمل دینے والے لوگ ہماری معاشروں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔”
-
-
- نجی کاروبار: طبی سازوسامان فراہم کرنے والی کمپنیاں اندرون و بیرون ملک حفاظتی سازوسامان کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ”3 ایم کو” نامی کمپنی امریکہ، ایشیا اور یورپ میں اپنی فیکٹریوں میں آلات تنفس اور دیگر طبی سازوسامان کی پیداوار میں فوری اضافہ کر رہی ہے۔ نائب صدر پینس نے تشخیصی لیبارٹری کے کاروباری لیڈروں سے ملاقات میں کہا، ”یہ ایک طاقت ور صنعت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ہم امریکی عوام کے لیے ایک ہی ہفتے میں ہزاروں طبی معائنوں کی سہولت ممکن بنا سکتے ہیں اور آئندہ ہفتوں میں واقعتاً لاکھوں طبی معائنے کیے جا سکیں گے۔”
- کالج اور یونیورسٹیاں: امریکی تعلیمی ادارے بھی بیماری کا پتا چلانے اور اس کی نشاندہی میں مدد کر رہے ہیں۔ نائب صدر پینس نے بتایا کہ جان ہاپکنز یونیورسٹی نے دنیا بھر میں اس بیماری کے مریضوں پر نظر رکھنے کے لیے آن لائن ٹریکنگ سسٹم بنایا ہے جبکہ یونیورسٹی کی بعض لیبارٹریوں میں طبی معائنے بھی کیے جا رہے ہیں۔
- دوسرے ممالک کی مدد: امریکی حکومت نجی شعبے اور دوسرے امریکی عطیہ دہندگان کے تعاون سے پہلے ہی 17 ٹن عطیات بشمول آلات تنفس، ماسک اور دیگر طبی سازوسامان چینی عوام کی مدد کے لیے بھیج چکی ہے۔
-
وفاقی حکومت نے چین اور کورونا وائرس سے متاثرہ دوسرے ممالک کی مدد کے لیے اب تک 100 ملین ڈالر تک رقم مختص کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ماہ کہا، ”امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ فیاض عطیات دہندہ ہے اور رہے گا۔ اس بیماری کے خلاف امریکی ردعمل ”سنجیدہ و موثر ہے اورایسا ہی ہو گا۔”