رنگ برنگے پولنگ بوتھوں کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک خاتون اپنے بیلٹ پیپر کو دیکھ رہی ہیں۔ (© Robert F. Bukaty/AP Images)
3 مارچ کو ریاست مین کے شہر مکینک فالز میں لوئیس ولکوکس صدارتی پرائمری انتخابات کے دوران پولنگ بوتھ سے باہر نکل رہی ہیں۔ (© Robert F. Bukaty/AP Images)

کورونا وائرس کے باوجود امریکہ اپنے قومی انتخابات اسی سال منعقد کرے گا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ عمل قدرے مشکل تو ہو سکتا ہے مگر صدارتی اور کانگریس کے انتخابات کے ساتھ ساتھ بعض ریاستی اور مقامی انتخابات 3 نومبر کو ہی ہوں گے۔ امریکی آئین کے تحت کانگریس کے اراکین کی مدت 3 جنوری اور صدر کی مدت 20 جنوری کو ختم ہو جاتی ہے۔

وفاقی انتخابات کی نگرانی کرنے والے فیڈرل الیکشن کمشن میں غیرملکی وفود امریکہ کے نظام میں وفاقی عمل دخل سے خود مختاری پر حیران ہوتے ہیں۔ ریاستیں اور کاؤنٹیاں ووٹ ڈالنے اور نتائج کی اطلاع دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ اس نظام میں ووٹروں کو لاحق کورونا جیسے خطرات کے باوجود وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے عمل کو مشکل بنایا گیا ہے۔ تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ہان وون سپاکوفسکی کے مطابق قوم کے بانیوں نے نظام کو ایسا اس لیے بنایا تاکہ وفاق میں حزب اقتدار اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کے لیے انتخابی قوانین میں تبدیلی نہ کر سکے۔

اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں انتخاب کے پروگرام کے بارے میں قوانین کے ڈائریکٹر ایڈورڈ بی فولی کہتے ہیں، “ہمارے پاس وقت ہے اورماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ کچھ مختلف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مگر یہ توقع رکھنے کے لیے ہمارے پاس تمام وجوہات موجود ہیں کہ فاتح امیدوار ووٹ ڈالنے کے حقدار ووٹروں کا مستند انتخاب ہوں گے۔ ہم اس جیسے ماحول میں بھی عوام کی حکومت کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہماری قومی شناخت کا پتہ دیتی ہے۔”

پرائمری انتخابات کا التوا

نئے کورونا وائرس نے جب حملہ کیا ہے تو امریکہ کی صدارتی مہم ابتدائی تین مرحلوں کی درمیانی مدت میں ہے۔ پہلے مرحلے میں ہر ایک بڑی پارٹی پرائمری اور کاکس کے انتخابات کے ذریعے نامزد کیے جانے والا امیدوار چنتی ہے۔ نصف سے زیادہ ریاستیں اور علاقے اِن مقابلوں کا انعقاد کر چکے ہیں۔ باقیماندہ ریاستیں اس امید کے ساتھ انہیں بہار کے موسم تک مزید ملتوی کرتی چلی جا رہی ہیں کہ اُس وقت تک ووٹروں کے لیے ووٹ ڈالنا زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔

دستانے پہنے ووٹنگ بوتھ میں کھڑی ایک عورت۔ (© Tony Dejak/AP Images)
کلیو لینڈ میں 13 مارچ کو پیشگی ووٹنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آندریا انتھوری ووٹ ڈال رہی ہیں۔ (© Tony Dejak/AP Images)

فولی کہتے ہیں، “اموات کی تعداد خوفناک ہے مگر امریکہ کمیونٹی کی حیثیت سے اس سے گزر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ (وائرس) ہمارے عوام کے اپنے آپ پر حکمرانی کرنے کو ختم نہیں سکتا۔”

کنونشنوں میں لچک

امریکہ کے انتخابی مراحل میں دوسرا مرحلہ گرمیوں میں آتا ہے جب ہر ریاست اور علاقہ باضابطہ طور پر حتمی امیدوار چننے کے لیے بڑی پارٹیوں کے کنونشنوں میں اپنے اپنے وفود بھیجتے ہیں۔

یہ کنونشن نامزد کردہ امیدواروں کو اپنے حامیوں سے ملنے، چندہ اکٹھا کرنے اور براہ راست نشریات کے ذریعے عوامی توجہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ تاہم آئندہ گرمیوں میں کسی کنونشن ہال میں ہزاروں لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا شاید ممکن نہ ہو سکے۔

فولی بتاتے ہیں کہ قانونی لحاظ سے سیاسی پارٹیوں کو دوسرے طریقوں سے بھی اپنے نامزد کیے جانے والے امیدواروں کو چننے کی آزادی حاصل ہے۔ اُن کے لیے صرف کنونشن کے ذریعے ہی چننا ضروری نہیں ہے۔ ہر ایک پارٹی کے لوگ ذاتی طور پر اکٹھے ہوئے بغر باضابطہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کرنے کے لیے طریقہائے کار طے کر سکتے ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں ڈیموکریٹس نے ریاست وسکونسن کے شہر مِلواکی میں 13 جولائی کو شروع ہونے والے ہفتے کے دوران ہونے والے اپنے کنونشن کو 17 اگست تک ملتوی کر دیا ہے تاکہ منصوبہ بندی کے لیے مزید وقت حاصل کیا جا سکے۔

اس اعلان سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن کی کمیٹی کی ترجمان، کیٹی پیٹرز نے کہا، ” ہم کورونا وائرس کی ایسی مشکلات کا حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے میں صحت عامہ کو غیرضروری خطرات سے دوچار کیے بغیر ہم ہنگامی متبادلات کے ایک وسیع سلسلے پر غور کر رہے ہیں تاکہ ایک کامیاب کنونشن کے انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔”

ری پبلکن پارٹی کے ارکان کا 24 اگست سے ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں ملنے کا پروگرام ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے قومی کنونشن کی سیکرٹری ٹیٹم گِبسن کہتی ہیں، “کووِڈ-19 کے پھیلنے کی وجہ سے ہم حاضرین کی سلامتی اور صحت کے لیے اضافی اقدامات اٹھائیں گے اور اپنی منصوبہ بندی کے دوران صحت کے وفاقی، ریاستی اور مقامی ماہرین کے ساتھ اپنے رابطے جاری رکھیں گے۔”

ووٹر فاصلے پر رہیں گے

اگرچہ اس مہم کا آخری مرحلہ یعنی 3 نومبر کو انتخاب کا دن، سات ماہ دور ہے تاہم تب تک کورونا وائرس کی موجودگی کی صورت میں ریاستیں طریقہائے کار تبدیل کرنے کا کام شروع کر رہی ہیں۔

ملک کی ریاستوں کے الیکشن کے اعلٰی اہل کاروں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ، پال ڈی پیٹ کے مطابق حکام پولنگ سٹیشنوں کی تعداد کم کرنے اور بوڑھے اور کمزور انتخابی رضاکاروں کی جگہ کالج کے طلبا یا نوجوان اور صحت مند سرکاری ملازموں، وکیلوں یا اُن کے معاونین کو لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

بعض ریاستیں بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کی سہولتوں میں بھی اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

دستانے پہنے ہاتھوں میں پکڑے انتخابی بیلٹ۔ (© Ted S. Warren/AP Images)
ریاست واشنگٹن کے شہر رینٹن میں ایک انتخابی کارکن 10 مارچ کو ریاست واشنگٹں کے پرائمری صدارتی انتخاب کے ووٹ جمع کر رہا ہے۔ (© Ted S. Warren/AP Images)

بہت سی ریاستوں میں بیماری یا شہر سے باہر سفر جیسی منظور شدہ وجوہات کی بنیاد پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی (جو غیرحاضری” سے ووٹ ڈالنا بھی کہلاتا ہے) اجازت ہوتی ہے۔ تاہم کچھ مزید ریاستی قانون ساز ادارے اس سہولت کی فراہمی کے لیے قانون منظور کر رہے ہیں۔ الیکشن اہل کار ملین کی تعداد میں لفافوں سمیت ووٹ ڈالنے کے لیے درکار ضروری سامان خرید رہے ہیں۔

نومبر 2000 کے بعد سے ریاست اوریگن مکمل طور پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے پر انحصار کرتی چلی آ رہی ہے۔

اگر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا سلسلہ عام ہوگیا تو انتخاب کی رات کو ووٹنگ کے اوقات ختم ہونے کے بعد گھنٹوں کے اندر نتائج دستیاب نہیں ہوں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ وون سپاکوفسکی کہتے ہیں، “عام ووٹوں کی نسبت ڈاک کے ذریعے ڈالے گئنے ووٹوں کی گنتی ایک بہت سست (عمل) ہوتا ہے۔”

ریاست آئیووا کے سیکرٹری آف سٹیٹ اور دوسری تمام ریاستوں کے اپنے ہم منصبوں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ، پیٹ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابی عہدیداروں کو ہمیشہ سمندری طوفانوں، عام طوفانوں اور زلزلوں کا سامنا رہا ہے۔ پیٹ امریکی ووٹروں سے کہتے ہیں، “شاید یہ تھوڑا سا مختلف ہو۔ تاہم آپ کی آواز سنی جائے گی اور آپ کا ووٹ گنا جائے گا۔”