امریکی جدت پسند نئے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اِن کوششوں میں پہلے ہی سے ویکیسین تیاری کے مراحل میں ہے اور امریکہ اور ایشیا میں علاج کے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔
اس سرعتی ردعمل کو اس ماہ تب فروغ ملا جب صدر ٹرمپ نے مخففاً کووِڈ-19 کہلانے والے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے وفاقی فنڈ کی صورت میں 8.3 ارب ڈالر کی فراہمی کے قانون پر دستخط کیے۔ اس رقم سے وفاقی اداروں اور اِن کے نجی شعبے کے شراکت کاروں کو تیزی سے ویکسین اور نئے علاج کی تیاری میں میں مدد مل رہی ہے۔
11 مارچ کو صدر ٹرمپ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “اِن علاجوں سے وائرس کے اثرات اور پہنچ میں کمی واقع ہوگی۔ ٹسٹوں اور ٹسٹوں کی صلاحیتوں کا دائرہ کار پھیلایا جا رہا ہے۔ ہم تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔”
مارچ میں کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں الرجی اور متعدی امراض کے قومی انسٹی ٹیوٹ (این آئی اے آئی ڈی یا نائیڈ) کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر انتھونی فوسی نے کہا کہ سائنسدان ترقی کے ابتدائی مرحلے میں ایک “ریکارڈ” رفتار سے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں۔ تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ ضروری جانچ کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ کووِڈ-19 کی محفوظ اور موثر ویکسین کی تیاری میں ایک سال سے 18 ماہ کا عرصہ لگے۔
فوسی نے کہا، “ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ ویکسین محفوظ ہو اور ہمیں یہ یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ کام کرے۔”
ویکسین تیار کرنے کی اس دوڑ کے ساتھ ساتھ امریکی شراکت کار مریضوں کو بچانے اور اس مرض پر قابو پانے کے لیے نئے طریقہائے علاج بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور لوگوں کو بچانے اور بیماری پر قابو پانے کی خاطر ٹسٹوں کو وسعت دے رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ذیل میں زندگی بچانے والے اُن چند ایک اقدامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو پہلے سے ہی اٹھائے جا چکے ہیں:
ویکسین

فوسی نے کہا بے شمار امکانی ویکسینوں پر کام ہو رہا ہے۔ اگلے دو ماہ میں پہلی ویکسین کی آزماشی جانچ شروع ہو جائے گی۔ میساچوسٹس کی بائیو ٹیک کمپنی ‘موڈرنا’ نے فروری میں ‘ایم آر این اے-1273’ نامی ویکسین کے پہلے نمونے آزمائشی جانچ کے لیے نائیڈ اور صحت کے قومی ادارے کو بھجوائے۔
میری لینڈ کے شہر گیدرز برگ کی بائیوٹیک کمپنی، ‘نوووایکس’ متعدد امکانی ویکسین تیار کررہی ہے۔ کمپنی کے 10 مارچ کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ویکسین کی آزمائشوں کے پہلے مرحلے کی ابتدا آنے والے مہینوں میں ہو جائے گی۔
علاج
ایک طرف جہاں ویکسینوں اور اِن کی اکسیریت کی جانچ پر کام جاری ہے وہیں دوسری طرف صحت عامہ کے شعبے کے امریکی پیداوار کنندگان پہلے ہی سے متاثرہ افراد کے علاج کے نئے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ فروری کے آخر میں کیلی فورنیا میں قائم ‘گیلیڈ’ نامی کمپنی نے ایشیا اور امریکہ میں نئی کووِڈ-19 کے ‘ریمیڈ سیور’ نام کے طریقہ علاج کی آزمائش شروع کی۔ کمپنی کو چین میں کیے جانے والے ٹسٹوں کے نتائج اپریل میں موصول ہونے کی توقع ہے۔
سی ایٹل کی بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے 12 مارچ کو دواساز کمپنی، ‘انوویو’ کو بالخصوص کووِڈ-19 عالمی وبا سے نمٹنے کی خاطر، ویکسین کی فراہمی کے آلے کی تیاری کے لیے پانچ ملین ڈالر دیئے۔ اس آلے کے ذریعے آئی این او-4800 ویکسین فراہم کی جائے گی۔ انوویو کی تیار کردہ اس ویکسین کی آزمائش اپریل میں شروع ہونے کی توقع ہے۔
انوویو کا منصوبہ ہے کہ ویکسین پہنچانے والے اس چھوٹے سے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے لے جائے جا سکنے والے آلے کی پیداوار اس سال کے آخر تک شروع کر دی جائے۔
ٹسٹنگ
امریکی کمپنیاں کووِڈ-19 کی تشخیص کے لیے لوگوں کے ٹیسٹ کرنے پر بھی تیزی سے کام کر رہی ہیں۔ امریکی محکمہ صحت اور انسانی خدمات (ایچ ایچ ایس) پہلے ہی ‘ہائی تھرُو پُٹ ٹیسٹ’ (یعنی کیمیائی مادوں کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی جانچ کے خودکار نظآم) کی تیاری میں مالی مدد کررہا ہے۔ اس نظام کے تحت ایک دن میں ایک ہزار مریضوں کے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں اور ان کے نتائج تین گھنٹے کے اندر دسیاب ہو سکتے ہیں۔
ایچ ایچ ایس کی بائیو میڈیکل ایڈوانسڈ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (بارڈا) نے 9 مارچ کو میساچوسٹس میں قائم ‘ہولوجِک’ کو سکریننگ کا ایک نیا ٹیسٹ تیار کرنے کے لیے 699,000 ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ٹیسٹ ہفتوں میں تیار ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ یہ امریکہ کے خوراک اور دواؤں کے ادارے کی جانب سے فوری ہنگامی استعمال کی اجازت کے عمل کا اہل ٹھہرے۔
بارڈا کے ڈائریکٹر، رِک برائٹ نے ایک بیان میں کہا، “انفیکشن کے درست علاج اور کووِڈ-19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد کے لیے، فوری اور تیز تشخیص معالجین اور ان کے مریضوں کے لئے ضروری ہے۔”