بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے مراکز یا ‘سی ڈی سی’ امریکیوں اور ہر کہیں کے لوگوں کو صحت مند رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ آجکل کورونا وائرس سے عوامی صحت کو لاحق ہنگامی صورت حال خبروں پر چھائی ہوئی ہے ،ایسے میں سی ڈی سی کے بارے میں جاننے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔
سوال: بیماری پر قابو پانے اور اس کی روک تھام کے مراکز کس طرح کا ادارہ ہے؟
جواب: سی ڈی سی امریکہ میں عوامی صحت سے متعلق قومی ادارہ ہے۔ یہ امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات کا حصہ ہے جو کہ وفاقی حکومت میں کابینہ کی سطح کا ادارہ ہے۔ سی ڈی سی کا بنیادی مقصد اچھی صحت کے لیے کام کرتے ہوئے وبائی اور دیرینہ بیماریوں پر قابو پانا اور ان کی روک تھام کرنا ہے۔

سوال: سی ڈی سی کا آغاز کیسے ہوا؟ اور اس نے اپنے ابتدائی دور میں صحت سے متعلق ہنگامی حالات سے کیسے نمٹا؟
جواب: سی ڈی سی کا قیام 1946 میں اٹلانٹا میں متعدی بیماریوں پر قابو پانے کے مرکز کے طور پر عمل میں آیا۔ اسے جنگی علاقوں میں ملیریا پر قابو پانے کے پروگرام کی جگہ قائم کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کےدوران ایسے علاقوں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئی تھیں جہاں مچھروں کی بہتات ہوا کرتی تھی اور اس پروگرام نے متاثرہ مچھروں کو عام شہریوں میں ملیریا پھیلانے سے روکنے کا کام کیا۔ جب امریکہ میں ملیریا پر قابو پا لیا گیا تو سی ڈی سی نے اپنی توجہ دماغی بخار، پیچش، باؤلے کتے کے کاٹے کی بیماری اور طاعون سمیت دیگر بیماریوں پر مرکوز کرنا شروع کر دی۔ 1952 میں پولیو کی وبا سے 3145 امریکی ہلاک اور 21،000 اپاہج ہوئے۔ تاہم 1955 تک سی ڈی سی کے اشتراک سے کام کرنے والے امریکی ڈاکٹر جونس سالک نے پولیو کی پہلی موثر ویکسین تیار کی۔ 1979 تک امریکہ سے پولیو کا خاتمہ کر دیا گیا۔
سوال: سی ڈی سی 2019 میں سامنے آنے والے نوول کورونا وائرس سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
جواب: 20 جنوری کو سی ڈی سی نے عوامی صحت سے متعلق اپنے شراکت داروں کو چینی صوبے ہیوبے کے شہر ووہان میں شروع ہونے والی اس وبا کے خلاف مدد کرنے کی خاطر ہنگامی کارروائیوں کے ایک مرکز کو متحرک کیا۔ اس مرکز میں موجود ماہرین معلومات کی نگرانی اور تبادلہ، عوامی صحت کو لاحق بحرانی کیفیت سے نمٹنے کی تیاری اور فوری مشترکہ فیصلے کرتے ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال کے دوران سی ڈی سی نے ووہان سے نکالے گئے امریکیوں کو دو ہفتےکے لیے قرنطینے میں یعنی الگ تھلگ رکھنے کو ضروری قرار دیا۔ 50 سال سے زیادہ عرصہ میں یہ پہلا موقع ہے جب سی ڈی سی نے مریضوں کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ سی ڈی سی تاحال لاعلاج سمجھے جانے والے اس وائرس کے بارے میں تحقیق کرنے کے علاوہ لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے مشورے بھی دے رہا ہے۔ امریکی وزیر صحت و انسانی خدمات ایلکس ایزر نے، جن کی وزارت کے زیر نگرانی سی ڈی سی کام کرتا ہے، ”اس طرح کی وباؤں سے نمٹنے کی تیاری … امریکہ میں عوامی صحت سے متعلق پیشہ ور ماہرین کی روزمرہ زندگی کا ایک حصہ ہے”۔
سوال: کیا سی ڈی سی دوسرے ممالک کی مدد کرتا ہے؟
جواب: سی ڈی سی طویل عرصہ سے عالمگیر سطح پر عوامی صحت کے مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے جن میں 1980 کی دہائی میں ایچ آئی وی/ایڈز کا ظہور اور 2014 میں ایبولا کی وبا بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں حکام کے ساتھ کام کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سی ڈی سی کورونا وائرس کی نشاندہی کرنے والی ہزاروں ٹیسٹ کِٹیں پہلے ہی دنیا بھر میں بھیج چکا ہے اور ہزاروں مزید بھیجی جائیں گی۔ مثال کے طور پر ویت نام کے ہسپتالوں اور ہنوئی، نے ٹرینگ اور ہوچی من سٹی میں عوامی صحت کی تجربہ گاہوں کے لیے ایسی 4،000 کٹیں دی جائیں گی۔ سی ڈی سی قازقستان میں صحت سے متعلق رہنمائی کے مواد کا روسی زبان میں ترجمہ کر رہا ہے اور بیرونی ممالک کے بہت سے ہسپتالوں میں طبی عملے کے ارکان کو مریضوں سے نمونے جمع کرنے کے طریقہ ہائے کار کی تربیت دے رہا ہے۔ سی ڈی سی نے چین میں جاری اپنے کام کے لیے وہاں ایک ماہر تعینات کر رکھا ہے اور امید ہے کہ اضافی مدد بھی فراہم کی جائے گی۔ سی ڈی سی میں کورونا وائرس کے بارے میں عالمگیر ٹاسک فورس کی سربراہ ڈاکٹر باربرا مارسٹن کہتی ہیں، ”ہم اس کے لیے یوں تیاری کر رہے ہیں جیسے یہ ایک عالمی وبا ہو جبکہ امید رکھتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔”
