افردیتا بائتقی کوسوو کے سب سے بڑی عدالتی نظام یعنی ‘ پریشٹینا کی بنیادی عدالت’ کی صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں۔

افردیتا نے عدالت کا صدر بننے کے لیے ایک کھلے عام مقابلے میں صدر بننے کے لیے درخواست دی۔ اُن کے ہمراہ پانچ مرد ججوں نے بھی اس عہدے کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے افردیتا کی حمایت کی تاہم زیادہ تر کا کہنا تھا کہ کسی عورت کے لیے اس عہدے کی ذمہ داریاں پورا کرنا ایک مشکل کام ہے۔

وہ کہتی ہیں، “لوگوں نے سوچا کہ میں [عورت ہونے کی وجہ سے] پریشٹینا کی بنیادی عدالت کو کامیابی سے نہیں چلا سکتی۔ لیکن میں نے ان کو غلط ثابت کر دیا ہے۔”

میز پر پڑی لکڑی کی ہتھوڑی۔ (USAID/Sebastian Lindstrom)
کوسوو کے تقریباً 60 فیصد ججوں کو یو ایس ایڈ کے ایک پروگرام کے تحت اخلاقی ضابطے کی تربیت دی جا چکی ہے۔ (USAID/Sebastian Lindstrom)

افردیتا اپنے چھ بھائیوں اور تین بہنوں کے ہمراہ پریشٹینا سے 32 کلو میٹر دور پہاڑوں میں گھرے اپنے گاؤں، اورلٹ میں پلی بڑھیں۔ اُن کے والد اور دادا نے اپنی برادری میں ثالث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جن سے متاثر ہو کر انہوں نے قانونی پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں، “اپنے بچپن کے زمانے ہی سے وہ جج بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ میری خواہش کے ساتھ ساتھ مجھے شوق بھی تھا کہ میں ایک ایسی با اختیار فرد بنوں جو انصاف مہیا کرتے ہوئے مقدمات کا فیصلہ کرے۔”

عدالت کی صدر بننے سے قبل افردیتا سنگین جرائم کے ڈویژن کی ایک جج تھیں اور دہشت گردی، بدعنوانی اور منظم جرائم جیسے حساس مقدمات کی سماعت کیا کرتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں، “جج بننے کے لیے آپ کا جراتمند ہونا ضروری ہے۔”

افردیتا کی زیرقیادت امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے یعنی یو ایس ایڈ نے عدالت کے عوامی معلومات کے دفتر کو مضبوط بنایا۔ یہ دفتر عدالت کی ویب سائٹ پر تازہ ترین معلومات پوسٹ کرتا ہے، پریس ریلیز جاری کرتا ہے اور میڈیا اور معاشرے کی طرف سے موصول ہونے والی درخواستوں کے جواب دیتا ہے۔

یو ایس ایڈ نے عدالتوں کی استعداد کار کو بہتر بنانے کی غرض سے التوا میں پڑے مقدمات کو کم کرنے والی ایک ٹیم تعینات کی جس کے نتیجے میں ججوں نے دو برسوں میں التوا میں پڑے مقدمات کی تعداد میں 30 فیصد کمی کی اور اب عدالت میں آنے والے مقدمات تیزی سے نمٹائے جا رہے ہیں۔

افردیتا وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، “مقدمات کو ایک معقول وقت کے اندر نمٹانا چاہیے کیونکہ اگر عدالت میں آنے والے مقدمات طوالت اختیار کریں گے تو (اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) ہم شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔”

عدالت میں بیٹھے لوگ افردیتا بائتقی کو میز کے پیچھے بیٹھا دیکھ رہے ہیں۔ (USAID/Sebastian Lindstrom)
افردیتا کہتی ہیں، “میں نے عدالتوں کے دروازے کھولے کیونکہ شفافیت اختیار کرکے ہی ہم عوام کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔” (USAID/Sebastian Lindstrom)

افردیتا کہتی ہیں، “جمہوری نظام میں انصاف کے نظام کا ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسی وقت کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوسوو میں ایک جمہوری نظام ہے جب ہمارے انصاف کا نظام موثر ہوگا۔”

افردیتا کی اِن تمام کامیابیوں کے بعد اُن کی عدالت کا صدر بننے کے لیے درخواست دینے کی حوصلہ شکنی کرنے والے ناقدین اب اپنی سوچ تبدیل کر چکے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کر لی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ‘عدالتوں کو حقیقی معنوں میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔'”

یہ مضمون ایک طویل شکل میں یوایس ایڈ کے ہاں دستیاب ہے۔