نیویارک بلڈ سنٹر کے سامنے ایک عورت کی سیلفی۔ (© Diana Berrent)
(© Diana Berrent)

مارچ میں جب ریاست نیویارک کے پورٹ واشنگٹن کی ڈیانا بیرنٹ کا کووِڈ-19 کا مثبت ٹیسٹ سامنے آیا تو انہیں علم نہیں تھا کہ اُن کا شمار اِس وباء سے صحت یاب ہونے والے اولین امریکیوں میں ہوگا۔

اِس امید سے حوصلہ پاکر کہ وہ صحت یاب ہو جائیں گیں اور اُن کے اینٹی باڈیز دوسروں کو بچائیں گے، اس فوٹوگرافر یعنی بیرنٹ نے سروائیور کور کی (جس کا اپنا ایک فیس بک گروپ ہے) ابتدا کی۔ سروائیور کور کا مقصد کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والوں پر خون اور پلازمے کے عطیات دینے کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔ اُن کے عطیات طبی محققین کو اس مرض کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں اور ممکن ہے کورونا کے مریضوں کا زیادہ موثر طریقے سے علاج کیا جا سکے۔ ( اینٹی باڈیزانفیکشن کا مقابلہ کرنے والے پروٹین کے خون کے سفید رنگ کے خلیے ہوتے ہیں۔)

حال ہی میں اس نیٹ ورک کے ممبروں کی تعداد 40,000 سے بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ اسے نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی تائید بھی حاصل ہو گئی ہے۔ ایسوسی ایشن اپنے سوشل میڈیا پیجز پر خون کے عطیات دینے کی مہم کی تشہیر کرے گی۔

بیرینٹ کا کہنا ہے، “درحقیقت ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ کووِڈ سے متاثر ہوئے والے تمام امریکیوں کے لیے (اس مسئلے کا) حل کا حصہ بننے کے لیے دعوت عمل ہے۔ لہذا جس طرح بھی ہو سکے وہ ہر طریقے سے سائنسی برادری کی مدد کریں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نے [سائنسی] مطالعات کے لیے رضاکاروں کی فوج تیار کر لی ہے تاکہ ہسپتالوں کو اپنے طور پر ان کو نہ تلاش کرنا پڑے۔”

ڈاکٹروں کے یہ طے کرنے کے بعد کہ اُن میں وائرس ختم ہو چکا ہے اور اُن کے جسم میں اعلٰی سطح کے اینٹی باڈیز موجود ہیں، بیرینٹ نے کولمبیا یونیورسٹی کے اِرونگ میڈیکل سنٹر میں تحقیق کے لیے نیویارک بلڈ سنٹر میں اپنے پلازمے کا عطیہ دیا۔

آرام دہ کرسی پر بیٹھی ایک عورت کا بازو ٹیوب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ (© Diana Berrent)
بیرنٹ نیویارک کے بلڈ سنٹر میں خون کا عطیہ دی رہی ہیں۔ (© Diana Berrent)

اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایلڈیڈ ہوڈ نے اسے صحت یاب ہونے والے افراد کے کے لیے “آگے آنے اور ایسا کچھ کرنے کا ایک موقع قرار دیا جس سے ہمارے پورے ملک میں اور پوری دنیا میں صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔”

ہوڈ کا کہنا ہے کہ اُن لوگوں کا صحت بخش پلازما زندگی بچانے والے اینٹی باڈیز پیدا کر سکتا ہے جو اس وائرس سے پاک ہو چکے ہیں اور ان اینٹی باڈیز کو دوسرے مریضوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ خوراک اور دواؤں کے ادارے نے امریکہ کے اولین اینٹی باڈی ٹیسٹ کی منظوری دی۔ یہ ٹیسٹ سیلیکس نامی امریکی بائیو ٹیک کمپنی نے تیار کیا ہے اس کے نتائج 15 سے 20 منٹ کے اندر دستیاب ہو جاتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے سیلیکس کے ٹیسٹ کو “ایک ایسا قدم قرار دیا ہے جو ایسے افراد کی نشاندہی کرے گا جو صحت یاب ہو چکے ہیں اور [میڈیکل کمیونٹی] کو ان کے مدافعتی ردعمل اور قوت مدافعت کے نظام کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔”

مشکل کے وقت امریکی رضاکاریت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں، فرانسیسی ماہر سیاسیات اور مؤرخ الیکسیس ڈی ٹُک وِل نے” امریکہ میں جمہوریت” میں لکھا، “کسی شاہراہ پر کوئی حادثہ ہو جائے تو زخمیوں کی مدد کرنے کے لیے ہر کوئی بھاگ اُٹھتا ہے؛ اگر کسی خاندان پر کوئی بہت بڑی اور اچانک اُفتاد آ پڑے تو ہزاروں اجنبی رضاکارانہ طور پر اپنے بٹووں کے منہ کھول دیتے ہیں اور اُن (متاثرہ لوگوں) کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مگر بے شمار عطیات کا تانتا بندھ جاتا ہے۔”

بیرنٹ بتاتی ہیں کہ ان پر کوووِڈ ۔19 وائرس کا ہلکا حملہ ہوا تھا۔ وہ اب ہر سات دن کے بعد پلازمے کا عطیہ دیں گی۔ وہ یہ توقع کرتے ہوئے کہ ان کی مہم پھیلتی چلی جائے گی کہتی ہیں، “ہمیں عالمی برادری کی حیثیت سے مل کر اس کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔”