
جب امریکیوں کو کووِڈ-19 کے بارے میں ڈیٹا یعنی اعداد و شمار کی ضرورت پیش آتی ہے تو امریکہ کا صحت عامہ کا نظام اُن کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے۔
بیماریوں کی روک تھام اور اُن پر قابو پانے کے مراکز (سی ڈی سی) ڈیٹا جمع کرتے ہیں، کسی بیماری کی نوعیت میں آنے والی تبدیلیوں کی نگرانی کرتے ہیں، اور انفیکشن کو روکنے کے لیے حفاظتی رہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔
نئے مریضوں کا پتہ چلانے کے لیے اس کے ماہرین بیرونی ممالک میں اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر بھی کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شانا زورک ریاست نیویارک میں بفیلو یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور متعدی بیماریوں اور عالمی وباؤں کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “درست ڈیٹا کو سی ڈی سی کے مشن میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔”
ڈاکٹر زورک کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صحت عامہ کے فیصلوں کی بنیاد “اعلٰی ترین معیار کے اُس سائنسی ڈیٹا پر ہوتی ہے جو کھلے عام اور معروضی طور پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔” سی ڈی سی کی ساکھ کے لیے ڈیٹا جمع کرنے کے لیے اس کے کڑے اور کھلے طریقہائے کار انتہائی اہم ہیں۔
صحت سے متعلق ڈیٹا جمع کرنے کا منظم طریقہ کار
ڈیٹا کی اطلاع دینے کے عمل کی ابتدا “قابل اطلاع بیماریوں کی نگرانی کے قومی نظام” سے ہوتی ہے جس کے ذریعے صحت عامہ کے ماہرین کو 120 بیماریوں کی نگرانی، ان پر قابو پانے یا ان کی روک تھام کرنے میں مدد ملتی ہے۔
“قابل اطلاع بیماری” ایسی بیماری ہوتی ہے جس کی جب بھی تشخیص ہو تو امریکی قانون کے تحت حکومت کو اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی مثالوں میں ہیضہ، ٹائیفائڈ یعنی معیادی بخار اور ملیریا کے ساتھ ساتھ سارز، مرس اور کووِڈ-19 جیسے کورونا وائرس شامل ہیں۔
اس ڈیٹا کو جمع کرنے کے لیے نگرانی کے نظام کے اہلکار، امریکہ کی تمام ریاستوں اور علاقہ جات اور ملک کے دارالحکومت کے صحت کے محکموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

سی ڈی سی کے مطابق معالجین، لیبارٹریاں، ہسپتال اور دیگر طبی ادارے بیماریوں سے متعلق ہر سال 27 لاکھ واقعات کی اطلاع دیتے ہیں۔
قانون کے تحت لازمی قرار دی گئی اِن رپورٹوں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے محققین کو وباؤں کے پھوٹنے پر نظر رکھنے، رجحانات کی نشاندہی کرنے اور صحت سے متعلقہ مستقبل کے بحرانوں کی پیشگوئی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
عوام کو شفاف معلومات کے ذریعے مشورے دینا
بیماریوں میں کمی لانے کے لیے سی ڈی سی جو حکمت عملی تیار کرتا ہے اُس کی بنیاد ڈاکٹروں سے موصول ہونے والی تشخیصیں، خطرات کے بارے میں معلومات، لیبارٹریوں کے مصدقہ نتائج اور آبادیوں میں مریضوں کی تعداد پر ہوتی ہے۔
کووِڈ-19 کا ڈیٹا ایک ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس تک صحت کے ماہرین، پالیسی سازوں اور عوام کو رسائی حاصل ہے۔ سی ڈی سی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور فیس بک اکاؤنٹ پرسادہ زبان میں اور آسانی سے پڑھے جا سکنے والی تازہ ترین معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔
Feeling sick? Answer a few questions about your symptoms using Clara, CDC’s #Coronavirus Self-Checker, to help you decide if you should call your doctor: https://t.co/5FnxlOcZpu. pic.twitter.com/MyozhN4H8j
— CDC (@CDCgov) April 24, 2020
زورک نے بتایا، “صحت عامہ کی ایک پروفیسر کی حیثیت سے یہ میرے فرائض میں شامل ہے کہ میں یہ یقینی بناؤں کہ میرے طلبا کو علم ہو کہ صحت عامہ کی درست معلومات کے جائزے کے لیے کون سے ذرائع استعمال کریں۔ سی ڈی سی ہمیشہ سرِ فہرست ہوتا ہے۔”
صحت عامہ کے دیگر قابل اعتبار ذرائع میں صحت کا قومی ادارہ اور منیسوٹا میں میو کلینک اور اوہائیو میں کلیو لینڈ کلینک اور میری لینڈ میں جان ہاپکنز ہیلتھ سسٹم جیسے بڑے بڑے طبی مراکز شامل ہیں۔
ماضی کی روشنی میں مستقبل کے فیصلے
تحقیق کرنے والے ماہرین ماضی کی اور حالیہ وبائی امراض سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔
جب کسی قابل اطلاع بیماری کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو سی ڈی سی وبا کے خاتمے کے بعد نظرثانی شدہ ڈیٹا جاری کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سی ڈی سی نے میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈرم) کے سال 2014 کے وسط میں کم ہو جانے کے بعد جنوری 2015 میں تازہ ترین معلومات شائع کیں۔ اِن معلومات میں یہ بتایا گیا کہ امریکہ سمیت دنیا میں لیبارٹریوں کے تقریباً 1,000 مصدقہ مریض سامنے آئے جن میں سے زیادہ تر افراد مارچ اور مئی 2014 کے درمیان بیمار ہوئے۔ اِن معلومات کے مطابق، “ملک بھر میں نگرانی اور آج تک 45 ریاستوں میں 514 مریضوں کے ٹسٹوں کے باوجود (میرس کا) کوئی مریض سامنے نہیں آیا۔”