
وہ ممالک جو پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے کی درجہ بندی میں نیچے آئے اُن کا ایسے ممالک میں شمار ہونے کا بھی غالب ترین امکان ہے جو کووِڈ-19 کے بارے میں رپورٹنگ کو دباتے ہیں۔
دنیا بھر میں میڈیا کی آزادی کی نگرانی کرنے والی ‘ سرحدوں سے ماورا رپورٹرز’ نامی غیرمنفعتی بین الاقوامی تنظیم ہر سال اِس اشاریے کے تحت ایک فہرست مرتب کرتی ہے۔ 3 مئی کو پریس کے عالمی دن سے پہلے 21 اپریل کو یہ فہرست جاری کی گئی۔
2 مئی کو وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے ایک بیان میں کہا، “اُن کی رپورٹنگ کی وجہ سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ خبروں کو روکا گیا اور ویب سائٹوں میں اس لیے رکاوٹیں ڈالی گئیں کیونکہ صحافیوں نے کووِڈ-19 کے جواب میں حکومتوں کے سرکاری ردعملوں پر سوالات اٹھائے اور اُن پر تنقید کی۔”
صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والی کمیٹی، پریس کی آزادی کو فروغ دینے والی ایک آزاد اور غیر منفعتی تنظیم ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 250 صحافی قید ہیں۔ چین، ایران اور وینیز ویلا میں کووِڈ-19 اور ایسے دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو مسلسل اس لیے انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ یہ حکومتیں اِن موضوعات کو حساس سمجھتی ہیں۔
چین
گو کہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سرعام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صحافیوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ صحافیوں کی من مانی گرفتاریوں اور آزاد عدلیہ کی غیرموجودگی کے ذریعے پریس کی آزادی پر پابندیاں لگانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ تنظیم، سرحدوں سے ماورا رپورٹروں کے مطابق چین نے مجموعی طور پر 109 صحافیوں کو قید میں ڈالا ہوا ہے۔
مارچ میں پی آر سی حکومت نے 113 غیرملکی صحافیوں کو ملک بدر کیا۔ چینی حکام کووِڈ-19 جیسے حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے سوشل میڈیا کے چینلوں سے شائع شدہ مواد کو حذف کر دیتے ہیں۔ سرحدوں سے ماورا رپورٹروں کی ایک رپورٹ کے مطابق رسالے۔ “کائجنگ” کو اس لیے سنسر کیا گیا کیونکہ اس نے کووِڈ-19 کے ایسے مریضوں کے بارے میں اطلاعات دی تھیں جن کو گنتی میں نہیں لایا گیا تھا۔
18 اپریل کو نیکسٹ ڈیجیٹل میڈیا گروپ کے بانی، جمی لائی کو ہانگ کانگ میں 14 سرگرم کارکنوں کے ہمراہ غیرمجاز اجتماعات منظم کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔
پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے میں، پی آر سی کا 180 ممالک کی فہرست میں 177واں نمبر ہے۔
ایران

ایران میں جہاں حکومت نے پہلے ہی سے صحافیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، پریس کی آزادی مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء کی شکل میں حکومت کے ہاتھ سخت اقدامات نافذ کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ ان اقدامات کی ایک مثال مارچ میں تمام اخبارات کی طباعت اور تقسیم پر پابندی ہے۔
کیوان صمیمی بھبھانی ایک سرکردہ صحافی اور ایران کے ماہنامہ “فردا” کے ایڈیٹر ہیں۔ انہیں ضمیر کے قیدیوں کی رہائی کی حمایت کرنے پر 20 اپریل کو اُن کی عدم موجودگی میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے میں ایران کا 180 ممالک کی فہرست میں 173واں نمبر ہے۔ گزشتہ 41 برس کے دوران ایران نے 860 سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا، جیل میں ڈالا یا موت کے گھاٹ اتار دیا۔
وینیز ویلا

پریس کی آزادیوں کے خلاف سخت کاروائیاں مادورو کی بدعنوان اور ناجائز حکومت کی ایک مستقل پالیسی چلی آ رہی ہے۔
صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق صحافی ایڈوارڈو گالنڈو کو 15 اپریل کو سین فرنینڈو ڈو اپیورو میں گرفتار کیا گیا۔ وینیز ویلا کے نیشنل گارڈ کے ارکان زبردستی اُن کے گھر میں گھسے، مشینیں اٹھائیں اور اُنہیں اور اُن کے دو رشتہ داروں کو گرفتار کرکے لے گئے۔ گالنڈو نے علاقے میں پٹرول کی قلت کے بارے میں آن لائن شائع ہونے والی ایک رپورٹ لکھی تھی۔
دو صحافیوں یعنی جسیئس انریکے ٹوریس اور جیسئس مینوئل کاسٹیلو کو ایک مقامی ہسپتال میں کوویڈ-19 کے مریضوں کی تفصیلی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کرنے کی وجہ سے مارچ میں گرفتار کیا گیا۔
پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے میں وینیز ویلا کا 180 ممالک کی فہرست میں 147واں نمبر ہے۔