کووِڈ-19 کے دوران امریکیوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بے شمار طریقے نکال لیے ہیں۔ اوپر تصویر میں نظر آنے والی جینیفر ہالر، سی ایٹل میں کائزر پرمانینٹے کے صحت کے تحقیقی ادارے میں کووِڈ-19 کی ایک ممکنہ ویکسین کے تجرباتی ٹیسٹوں کے پہلے مرحلے میں حصہ لینے والے ان رضارکاروں میں شامل تھیں جنہوں نے اِن ٹیسٹوں میں حصہ لیا۔
ہالر نے مارچ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، “ہم سب بہت بے بس ہیں۔ میرے پاس کچھ کرنے کا یہ ایک زبردست موقع ہے۔” اس کے علاوہ اُن کے دو نوجوان بچے “اسے ایک اچھی بات سمجھتے ہیں” کہ اِنہوں نے تجربات میں حصہ لیا۔
مشکل کے وقت امریکی رضاکاریت کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ 19 ویں صدی میں فرانسیسی ماہر سیاسیات اور تاریخ دان الیکسس ڈی ٹُک وِل نے کہا کہ امریکی حکومت کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنے تئیں خود ہی کام میں لگ جاتے ہیں۔
ٹُک وِل اپنی دو جلدوں پر مشتمل کتاب “ڈیموکریسی اِن امیریکا‘ (امریکہ میں جمہوریت) میں لکھتے ہیں، “کسی شاہراہ پر کوئی حادثہ ہو جائے تو زخمیوں کی مدد کرنے کے لیے ہر کوئی بھاگ اُٹھتا ہے؛ اگر کسی خاندان پر کوئی بہت بڑی اور اچانک اُفتاد آ پڑے تو ہزاروں اجنبی رضاکارانہ طور پر اپنے بٹووں کے منہ کھول دیتے ہیں اور اُن (متاثرہ لوگوں) کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مگر بے شمار عطیات کا تانتا بندھ جاتا ہے۔”
کورونا وائرس کے بحران کے دوران امریکی ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور مندرجہ ذیل تصاویر اِس جذبے کی عکاس ہیں:-

8 اپریل کو نیو یارک میں ‘سینٹ جان دا ڈیوائن’ نامی گرجا گھر میں فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کے لیے رضا کار فرش پر بچھے ترپال پر ٹیپ لگا رہے ہیں۔

ریاست منیسوٹا، جنوبی سینٹ پال کی رجسٹرڈ نرس، ایلزبتھ شیفر اِن دنوں کووِڈ-19 عالمی وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے ماؤنٹ سنائی بیت اسرائیل ہسپتال میں رضاکارانہ طور پرکام کر رہی ہیں۔ وہ یکم اپریل کو اپنے کام کے دوسرے دن ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے تصویر بنوانے کے لیے کھڑی ہوئی ہیں۔
نیویارک میں رضاکارانہ طور پر ملک کے وسطی مغرب میں واقع اپنا گھر چھوڑ کر آنے والی شیفر نے کہا، “ایک نرس کی حیثیت سے میں نے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچانے اور جہاں میری ضرورت ہوگی وہاں جانے کا حلف اٹھایا تھا۔”

لنڈسی فرسٹ ٹی وی کمپنی نکلوڈین میں اداکاروں کو کردار تفویض کرنے اور نئے اداکاروں سے متعقہ امور کی مینیجر ہیں۔ فرسٹ 26 مارچ کو ریاست کیلی فورنیا کے شہر سانٹا مونیکا میں امریکی ریڈکراس کے دفتر میں خون کا عطیہ دے رہی ہیں۔

13 مارچ کو نیو روشیل، نیویارک کی ‘ہوپ کمیونٹی سروسز’ میں رضاکار معمر افراد میں مفت تقسیم کرنے کے لیے کھانے پینے کی اشیا تھیلوں میں ڈال رہے ہیں۔

دائیں جانب، سی ایٹل کے ‘ہاربر ویو میڈیکل سنٹر’ میں ایمرجنسی نرس کے طور پر کام کرنے والی ٹلیزا بنکس 2 اپریل کو اپنے ایک رفیق کار کے چہرے پر حفاظتی شیلڈ لگانے میں مدد کر رہی ہیں۔
چہرے پر لگانے والی اس حفاظتی شیلڈ کو رضاکاروں کے ایک نیٹ ورک کے اراکین نے تھری ڈی میں پرنٹ کیا اور اسے جوڑ کر تیار کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نےامریکہ کے صحت کے قومی ادارے کے تعاون سے کام کرتے ہوئے ادارے کے منظور کردہ ڈیزائن کو استعمال کیا۔

تصویر میں ورلڈ سنٹرل کچن کے ساتھ ایک رضاکارکے طور پر کام کرنے والی، ویلری چینگ کے ہاتھ کو ایک مقامی شخص کے ہاتھوں پر سینیٹائزر کا سپرے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ شخص 30 مارچ کو نئے کورونا وائرس کی وباء کے دوران میامی کے اوورٹاؤن کے علاقے میں ‘ریڈ رُوسٹر اوورٹاؤن’ نامی ریستوران کے باہر مفت کھانا لینے کے لیے انتظار کر رہا ہے۔
ریڈ رُوسٹر اوورٹاؤن ریستوران کے مالک شیف مارکس سیموئلسن ہیں اور اُن کا یہ ریستوران ابھی شروع نہیں ہوا۔ سیموئلسن نے اپنا ریستوران کووِڈ-19 کی وباء سے متاثر ہونے والے کمیونٹی کے افراد کے لیے کھانے تیار کرنے اور مفت تقسیم کرنے کے لیے، ‘ورلڈ سنٹرل کچن’ کے مالک، شیف ہوزے آندرے کے عملے کو عارضی استعمال کے لیے دے دیا ہے۔

مونیکا کینن گرانٹ ‘وائلنس اِن بوسٹن’ کی بانی ہیں۔ 18 مارچ کو وہ بوسٹن کے علاقے گروو ہل کے ‘فوڈ فار دا سول ریسٹورینٹ’ میں سکول کے بچوں اور علاقے کے دیگر ضرورت مند افراد کے لیے کھانا تیار کر رہی ہیں۔
جب سے انہوں نے مفت کھانا فراہم کرنا شروع کیا ہے اُس وقت سے سول ریسٹورنٹ اور وائلنس اِن بوسٹن کی سماج پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلقہ ٹیم کے لوگ 1,000 افراد کو روزانہ کھانا کھلاتے چلے آ رہے ہیں۔

26 مارچ کو نیویارک کے بروکلین برو میںواقع مسجد تقوٰی کے باہر میز پر کاغذوں میں پیک کی ہوئی روٹیاں اور ٹوکری میں سیب رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تصویری جھلکیاں اس سے قبل 21 اپریل کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں شامل تھیں۔