کووڈ-19 وبا سے لڑنے والے نوجوان رہنماؤں سے ملیے۔

آن لائن ملاقات کا سکرین شاٹ (Courtesy of Hackathon Thailand)
سیتا "سنڈی" ماراتناچائی، دائیں طرف، اور ردتاسری "بیس" وچیراپنیا نونٹ نے کووڈ-19 وباء کے مسائل کے کمیونٹی پر مبنی حل تلاش کرنے کے لیے 2020 میں ' کووڈ-19 ہیک دی کرائسز تھائی لینڈ' نامی آن لائن پلیٹ فارم کا منصوبہ بنایا۔ (Courtesy of Hackathon Thailand)

اپریل 2020 میں، الفریڈ کنکوزی نے دیکھا کہ ملاوی کے زیادہ تر لوگوں کو کووڈ- 19 کے بارے میں علم سوشل میڈیا سے سے ہوتا ہے۔ غلط معلومات نے اس پھیلتی ہوئی وبائی بیماری کے بارے میں خدشات کے بارے میں اضافہ کیا۔ لہذا کنکوزی نے ملاوی  میں رہنے والوں کو پھیلتی ہوئی اس وبائی بیماری کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک مفت ایپ تیار کیا۔

اس ایپ کا نام ‘ کووڈ-19 این ای بی اے’ رکھا گیا جس کا چیچیوا زبان میں مطلب “ارے پڑوسی” ہے۔ اس کے ذریعے عالمی ادارہ صحت اور بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی مراکز جیسے قابل اعتماد ذرائع سے حاصل ہونے والی حقائق پر مبنی معلومات ملاوی کے لاکھوں لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ معلومات انٹرنیٹ تک محدود رسائی والی زبانوں سمیت کئی ایک زبانوں میں فراہم کی جاتی ہیں۔

کنکوزی نے 2020 میں بتایا، “چونکہ ملاوی میں انٹرنیٹ تک رسائی مشکل اور عام طور پر مہنگی ہوتی ہے، اس لیے میں نے اس ایپ کو ایسے طریقے سے ڈیزائن کیا کہ اس کو ڈاؤن لوڈ اور مطابقت پذیری کے وقت صرف مقامی ڈیٹا بیس کی ضرورت پڑے۔ اسی لیےمعلومات تک آسانی سے آف لائن رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔”

کنکوزی نے امریکی محکمہ خارجہ کے منڈیلا واشنگٹن فیلوشپ (ایم ڈبلیو ایف) پروگرام میں 2017 میں شرکت کی اور اُن کا شمار امریکی قیادت کے تبادلے کے  پروگراموں کے متعدد اُن سابق شرکاء میں ہوتا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں کووڈ-19 کے خاتمے میں مدد کر رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایف کے ذریعے جو ینگ افریقن لیڈرز انیشی ایٹو (وائی اے ایل آئی) کا حصہ ہے، نوجوان رہنما امریکی یونیورسٹیوں میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں اور پیشہ ورانہ ترقی کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔

 الفریڈ کونکوزی اور موبائل سکرین شاٹس کی تصویروں کا مجموعہ (Courtesy of Alfred Kankuzi)کووڈ-19 این ای بی اے کے ایپ کے برابر الفریڈ کنکوزی کی تصویر۔ ان کا یہ ایپ ملاوی کے لوگوں کو کووڈ-19 کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرتا ہے۔ (Courtesy of Alfred Kankuzi)’ محکمہ خارجہ کے ایلومنائی ریپڈ ریسپانس فنڈ’ نے محکمے کے قیادت کے پروگراموں کے سابق طلباء کو دس ہزار ڈالر تک کے ایسے پراجیکٹوں کے لیے ایک سو سے زیادہ گرانٹس فراہم کی ہیں جن کے ذریعے درست معلومات فراہم کی جاتی ہیں، معاشی بحالی کو فروغ دیا جاتا ہے یا دیگر وبائی ترجیحات کو پورا کیا جاتا ہے۔

ذیل میں تبادلوں کے بہت سے دیگر امریکی پروگراموں کے ایسے سابق طلباء کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے کووڈ-19 سے نمٹنے میں اپنی اپنی کمیونٹیوں کی ہے:-

اولا کنلے [کنلے] اڈیوالا نے نائجیریا میں لوگوں کو فن، موسیقی اور رقص کے ذریعے کووڈ-19 وبا سے نمٹنے میں مدد کی اور اِن کے ‘ آرٹ ریسپانس ہیلنگ پراجیکٹ’ میں لاگوس سے 400  نوجوانوں، جوانوں اور حفظان صحت کی اگلی صفوں کے ورکروں نے شرکت کی۔ ایم ڈبلیو ایف کے 2015 کے سابق شریک، اڈیوالا ‘ ٹینڈر آرٹس نائجیریا’ نامی تنظیم کے بانی ہیں جو کہ آرٹ کے ذریعے تھیراپی کی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم نے نائجیریا، گھانا، کینیا، جنوبی افریقہ اور امریکہ میں آرٹ پروگراموں کے ذریعے 15,000 سے زائد افراد فیضیاب ہوئے۔

چیری آٹیلانو نے ‘ موو فوڈ انیشی ایٹو’ پروگرام کا آغاز کیا جس سے فلپائن میں کسانوں کے لیے کووڈ-19 قرنطینہ کے دوران صارفین تک تازہ سبزیاں پہنچانے میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ مئی 2020 تک اس پروگرام کے تحت 130,000 کلوگرام خوراک فراہم کی جا چکی تھی۔ آٹیلانو ‘ ینگ ساؤتھ ایسٹ ایشین لیڈرز انیشی ایٹو’ (وائی ایس ای اے ایل آئی)  میں شرکت کر چکی ہیں۔ وہ خوراک کے ضیاع اور بھوک کو ختم کرنے کی غرض سے ‘ ایگریا’ کے نام سے شروع کیے جانے والے زرعی کاروبار کی مالکہ ہیں۔

الاحسن باہ کی ریڈیو نشریات کی وجہ سے مغربی افریقہ کی  سرحدی بستیوں تک کووڈ-19 وبا کے بارے میں حقیقت پر مبنی معلومات پہنچ رہی ہیں۔ باہ نے 2016 میں ایم ڈبلیو ایف میں شرکت کی۔ جون 2021 تک دس بستیوں میں اُن کے سامعین کی تعداد تقریباً 200,000 ہو چکی تھی۔ باہ نے پیغام رسانی میں مدد کے لیے صحت کے ماہرین اور مذہبی رہنماؤں کی مدد بھی حاصل کی۔

رونیل گُزمین ڈومینیکن ریپبلک میں ایک پراجیکٹ کی مشترکہ قیادت کر رہے ہیں جسے کے تحت ڈی تھری پرنٹرز کا استعمال کرتے ہوئے پلاسٹک کی چہرے پر لگانے والی شیلڈیں تیار کی جاتی ہیں تاکہ کووڈ-19 کا علاج کرنے والے طبی عملے کے ارکان کی حفاظت کی جا سکے۔ اس پراجیکٹ نے آٹھ شہروں کے ہسپتالوں کو سیکڑوں شیلڈوں کے عطیات دیئے اور انہیں وہاں پہنچایا۔ گزمین امریکہ کے ‘ ینگ لیڈرز آف دا امریکنز انشی ایٹو [وائی ایل اے آئی] پروگرام میں شرکت کر چکے ہیں۔ انہوں نے 2015 میں ‘ ہب میکر سپیس’ کے نام سے مصنوعات بنانے والی ایک چھوٹی سی فیکٹری کی مشترکہ بنیاد رکھی۔

سیتا “سنڈی” ماراتناچائی اور رادتاسری “بیس” وچیراپنیانونٹ نے تھائی لینڈ کی شاہی حکومت کی شراکت سے 16 اپریل سے یکم مئی 2020 تک ‘ کووڈ-19 ہیک دی کرائسز تھائی لینڈ’ نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم چلایا۔ اِس آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے ورچوئل ورکشاپوں اور نیٹ ورکنگ پروگراموں کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے علاوہ، پراجیکٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کے مسائل کے کمیونٹی پر مبنی حل تلاش کرنے کی خاطر فنڈنگ کے لیے مقابلہ کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے گئے۔ ہیکاتھون کی یہ دونوں ڈویلپرز’ پروفیشنل فیلوز پروگرام’ کی سابقہ شرکاء ہیں۔

شریفہ ٹموسیمی نے یوگنڈا میں خواتین کاروباریوں کو کووڈ-19 وباء کے معاشی اثرات کا جائزہ لینے اور منصوبہ بندی کرنے کی تربیت دی۔ ‘ دا زمبا ویمن ماسٹر کلاس’ نے خواتین کی ملکیت والے 50 اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا اور کاروباری قیادت اور معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کی کوشش کی۔ ٹموسیمی 2015 میں ایم ڈبلیو ایف پروگرام میں شرکت کر چکی ہیں۔ وہ ‘ زِمبا ویمن’ کی شریک بانی ہیں جس کا مقصد افریقہ میں خواتین کاروباریوں کی مدد کرنا ہے۔