کووڈ-19 کا صف اول میں رہ کر مقابلہ کرنے والوں کی مدد کرنے والے میڈیکل کے طلبا

میڈیکل کے امریکی طلبا نے کووڈ-19 کے مریضوں کی ملک کے اندر دیکھ بھال کرنے والے طبی کارکنوں کے گھریلو محاذ سنبھال لیے۔

جب ڈاکٹر، نرسیں اور ہسپتالوں کے عملے کے ارکان لمبی لمبی شفٹوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو سماجی فاصلے کی پابندیوں کی وجہ سے اُن کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور زندگی کے روزمرہ کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے والے افراد کے لیے اُن کی مدد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

لہذا یونیورسٹی آف منیسوٹا میڈیکل سکول کی طالبات، لنڈن رابنسن اور برائنا اینگلسن نے اپنے 11 دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایم این کووڈ سٹرز کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ اُن کی یہ غیرمنفعتی تنظیم طبی عملے کے ایسے پیشہ ور افراد کو بچوں کی دیکھ بھال کرنے، پالتو جانوروں کا خیال رکھنے، اور اُن کے روزمرہ کے کام کاج کرنے کی سہولتیں فراہم کرتی ہے جو کورونا وائرس کے مریضوں کی نگہداشت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

رابنسن نے بتایا، “ہم میں سے بہت سے اُن افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہماری پوری زندگیوں میں ہماری مدد کی ہے۔”

چھوٹے سے بچے کو اٹھائے ہوئے ایک عورت (© COVIDsitters)
ایم این کووڈ سٹرز کی منتظمہ، لنڈن رابنسن منیسوٹا یونیورسٹی کے میڈیکل سکول کی کارکن، کیلی گراہیک اور بن کوالاسکی کی بیٹی، فرانزسسکا کوالاسکی کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ (© COVIDsitters)

سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اس تنظیم نے بلا معاوضہ پیش کی جانے والی اپنی خدمات کی تشہیر کی جس کے بعد یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔

رابنسن نے بتایا کہ جب ہمارے آن لائن فارم کو فعال کیا گیا تو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمیں ایک رات میں 126 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ ضرورت فوری طور پر نمایاں شکل میں ابھر کر ہمارے سامنے آئی۔ مارچ کے آخر تک رضاکاروں کو خاندانوں کی ضروریات کے مطابق اُن سے ملانے کے لیے ہم سب دن میں 15 گھنٹے کام کرتے رہے۔”

30 اپریل تک ہمارے گروپ میں 386 رضا کار تھے اور یہ سب منیسوٹا کے گریجوایٹ طلبا تھے۔ منیاپولس کے علاقے میں یہ رضاکار اب تک 248 خاندانوں کے چھوٹے بچوں اور 38 پالتو جانوروں کے لیے دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ گھر سے باہر کے 154 کام کر چکے ہیں۔

ملک بھر میں اور بیرون ملک میڈیکل کے طلبا کو ایم این کووڈ سٹرز کے بارے میں پتہ چلا۔ آج امریکہ کے اندر کووڈ سٹرز کے 21 پروگرام اور کینیڈا، برطانیہ اور سوڈان میں اسی طرح کے کئی ایک پروگرام ہیں۔

راس یونیورسٹی باربیڈوس میں میڈیکل کے تیسرے سال کی طالبہ گنجن ڈیسائی نیویارک سٹی میں اپنے گھر آئیں۔ جب اُنہیں ایم این کوڈ سٹرز کے بارے میں علم ہوا تو انہیں اپنے شہر میں اس کی ایک برانچ کھولنے کی ضرورت کا احساس ہوا۔

وہ بتاتی ہیں، “یہ عالمی وبا میرے نزدیک بہت سی وجوہات کی بنا پر ذاتی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ میری بہن نرس ہیں۔ اُن سے اُن کے ساتھیوں کی بچوں کی آیا یا بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کی تلاش کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں جان کر میرے دل میں اُن کے ساتھیوں کی مدد کرنے کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔”

این وائی سی کووڈ سٹرز کی ٹیم بچوں کی دیکھ بھال کرنے، پالتو جانوروں کا خیال رکھنے، روزمرہ کے کام کاج کرنے اور صحت کے شعبے کی اگلی صفوں میں کام کرنے والوں کے بچوں کو آن لائن پڑہانے کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

ڈیسائی کہتی ہیں، “گو کہ ہم علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مکمل طور پر تربیت یافتہ تو نہیں ہیں مگر ہم جو کچھ کر سکتی ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے طبی سہولتیں فراہم کرنے والے ہیروز اور کارکنوں کو یہ ذہنی سکون حاصل ہو کہ اُن کے گھروں اور اہل خانہ کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ اور یہ لچک اور قوت کی سرزمین یعنی نیویارک سٹی ہے۔”