کووڈ-19 کی ویکیسین کی تحقیق سے امریکی کامیابیوں میں ایک اور اضافہ

سکول کے ہال میں اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ، ایک ڈاکٹر بچے کو ٹیکہ لگا رہا ہے (© AP Images)
پولیو کی ویکسین تیار کرنے والے، ڈاکٹر جوناس سلک 23 فروری 1954 کو پیٹس برگ میں ایک پرائمری سکول میں ایک بچے کو ٹیکہ لگا رہے ہیں۔ (© AP Images)

ویکسین کی تیاری اور متعدی بیماریوں کے علاج میں امریکی قیادت، دنیا بھر میں کووڈ-19 کے خلاف جنگ کی جاری کوششوں میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

اس سے پہلے امریکہ پوری دنیا کے لوگوں کو زرد بخار، خسرے اور پولیو جیسی مہلک متعدی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ویکسینیں تیار کر چکا ہے اور آج بھی امریکہ ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج پر اربوں ڈالر خرچ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکی کامیابیوں سے حاصل ہونے والے تجربات، کووڈ-19 عالمی وبا کے خلاف جنگ میں ایک محفوظ اور موثر ویکسین کی تیزی سے تیاری کی کوششوں میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، تحقیق کے ایک حصے میں کووڈ-19  کی ممکنہ ویکسین کی تیاری کے لیے خسرے کی موجودہ ویکسین  سے مدد لی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ، ایڈز کے علاج کے لیے امریکی صدر کے ہنگامی منصوبے اور صحت کی سلامتی کے عالمگیر ایجنڈے سمیت،  صحت کے عالمی پروگراموں میں امریکی سرمایہ کاریوں سے ایسی شراکت داریاں قائم ہو چکیی ہیں جو کووڈ-19 کے خلاف بین الاقوامی ردعمل میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

کووڈ-19 کی محفوظ اور موثر ویکسین دریافت کرنے کے بارے میں وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے 2 ستمبر کو کہا، “دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جو ویکیسین مہیا کرنے میں اتنا پختہ عزم رکھتا ہو جتنا کہ امریکہ رکھتا ہے۔”

امریکی حکومت نے  ویکسین کی تحقیق کے لیے اربوں ڈالروں سمیت، اس وبا کے خلاف جنگ کے لیے 20.5 ارب ڈالر مختص کیے ہیں۔

حالیہ کوششوں میں متعدی بیماریوں کے خلاف عالمگیر جنگ کے بارے میں کام کرنے والے سائنس دانوں کی کامیابیوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

زرد بخار

اگرچہ لوگ صدیوں سے زرد بخار کا شکار ہوتے چلے آ رہے تھے، مگر کسی کو بھی اس کی وجہ اور اس کی روک تھام کا علم نہیں تھا۔ خون بہنے، اعضا کے ناکارہ ہو جانے بلکہ بعض اوقات موت واقع ہونے سمیت، لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے تھے۔

1900ء میں امریکی فوج کے سرجن، والٹر ریڈ کی سربراہی میں ایک کمشن نے پتہ چلایا کہ  زرد بخار کا سبب بنے والا وائرس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اس نئی دریافت سے سائنس دانوں کو وائرس کا جائزہ لینے کی صلاحیتیں حاصل ہوئیں۔ 1937ء میں نیویارک میں راک فیلر فاؤنڈیشن کے لیے کام کرنے والے جنوبی افریقہ کے ایک شہری، میکس تھیئلر نے مرغی کے جنین (کچے بچے) کے استعمال سے زرد بخار کی ویکسین تیار کی۔

آج بھی یہ ویکسین استعمال کی جا رہی ہے اور کروڑوں لوگوں کو لگائی جا چکی ہے۔

پولیو

پولیو سے ہر سال ہزاروں بچے معذور ہو جایا کرتے تھے۔ ایک امریکی ڈاکٹر، طبی محقق اور وبائی امراض کے ماہر، جوناس سلک نے 1950 کی دہائی میں پولیو کی ویکسین تیار کی۔

امریکہ میں براہ راست نگرانی میں کیے جانے والے اس کے آزمائشی تجربات میں، روز ویلٹ فاؤنڈیشن نے سلک کی ویکسین کو ٹیسٹ کیا۔ اِن میں دس لاکھ سے زائد سکول کے بچوں نے حصہ لیا۔ اِن ٹیسٹوں کے مثبت نتائج کی بنیاد پر، 12 اپریل 1955 کو امریکہ میں اس ویکسین کے استعمال کے لیے لائسنس جاری کر دیا گیا۔

1988ء میں امریکہ نے دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کی مہم شروع کرنے میں مدد کی۔ 1990 کی دہائی کے بعد سے اب تک امریکی کانگریس، دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لیے کروڑوں ڈالر فراہم کر چکی ہے اور اس کے نتیجے میں 1988 اور 2013 کے درمیان دنیا میں پولیو کے مریضوں میں 99 فیصد کمی آئی ہے۔ اس سال یعنی 2020 میں افریقہ نے اعلان کیا کہ پورے افریقہ میں  پولیو ختم ہو گیا ہے۔

خسرہ

حیاتیاتی طب کے امریکی سائنس دان، جان اینڈرز نے 1963ء میں خسرے کی ویکسین تیار کی۔ اس بیماری سے دنیا میں ہر سال 26 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے تھے۔

خورد بین استعمال کرتا ہوا ایک سائنس دان (© AP Images)
مارچ 1963 کی اس تصویر میں دکھائی دینے والے ڈاکٹر موریس ہلمین نے خسرے اور کن پیڑوں سمیت مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے ویکسینیں تیار کیں جن کی وجہ سے انہیں لاکھوں انسانی جانیں بچانے کا اعزاز حاصل ہے۔ (© AP Images)

پانچ سال بعد 1968ء میں مووریس ہلمین نے خسرے کی ویکسین کو بہتر بنانے کے بعد جو ویکسین تیار کی وہی ویکسین آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔ امریکہ کے بیماریوں کی روک تھام اور اِن پر قابو پانے کے مراکز کے مطابق 2018ء تک خسرے سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ہو کر 142,000 ہو گئی ہے۔

ہلمین نے یہ کام جاری رکھا اور 40 سے زائد مزید ویکسینیں تیار کیں جن میں کن پیڑوں، یرقان یا ہیپاٹائٹس  اے، ہیپاٹائٹس بی، گردن توڑ بخار، نمونیا، خسرے کی ایک قسم، رُوبیلا شامل ہیں۔

ایچ آئی وی/ایڈز

2003ء میں امریکہ نے پیپفار کے نام سے ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا کے خاتمے کے ایک پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ تاریخ کا کسی واحد بیماری سے نمٹنے کے لیے کسی ایک ملک کی جانب سے شروع کیا جانے والا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ پیپفار کے تحت امریکہ نے عالمی سطح پر ایچ آئی وی انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لیے 85 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ایک کروڑ 80 لاکھ انسانوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں، کروڑوں افراد کو اس انفیکشن کے لگنے سے محفوظ بنایا گیا اور 50 سے زائد ممالک میں اس وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے کام میں میں تیزی لائی گئی۔

والٹر ریڈ فوجی ہسپتال کے تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کے متعدی بیماریوں کے تحقیقی مرکز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر نیلسن مائیکل نے پیپفار پروگرام شروع کرنے میں مدد کی۔ ڈاکٹر نیلسن اس کے علاوہ ایبولا اور زیکا کی وباؤں کی ویکسینیوں کی تیاری میں بھی مدد کر چکے ہیں۔ اب وہ ایچ آئی وی اور کووڈ-19 کے وائرسوں سے بچنے کے لیے ویکسینوں کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نیلسن نے کہا، “ہمارے کام کے بہت اچھے نتائج  مرتب ہوئے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں بچائی گئیں اور آج اُن کی زندگیاں ہھل پھول رہی ہیں۔”