ایستونیا، لاتھویا، ڈنمارک، لتھوینیا میں امریکی سفارت خانوں نے مل کر 3 تا 6 دسمبر 48 for the Future(48 فار دا فیوچر) نامی “ہیکاتھان” [کمپیوٹر پروگرامروں اور کمپیوٹر کے دیگر ماہرین کے مسلسل مل کر کام کرنے] کے ایک ورچوئل مقابلے کی مشترکہ میزبانی کی۔ گیراج 48 اور سٹارٹ اپ وائز گائز نے اس “ہیکاتھان” کا اہتمام کیا۔
ہیکا تھان میں شرکاء کو کووڈ-19 کے بعد اقتصادی بحالی کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے موبائل فون ایپ بنانے یا ٹیکنالوجی کے ذریعے حل تلاش کرنے کا موقع ملتا ہے۔
دنیا کے 70 ممالک اور 27 امریکی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے 600 افراد نے کوڈنگ اور اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر شراکت کاری کے تحت تین دن تک مل کر کام کیا۔
گیراج 48 کی چیف ایگزیکٹو، ماری ہانیکاٹ نے کہا، “سال 2020 میں کورونا وائرس نے دنیا میں اپنے پنجے گاڑھے اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اِن اثرات نے بہت سے [معاشی] شعبوں کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا۔ نئی حقیقت سے مطابقت پیدا کرنے اور اس سے طاقت ور بن کر نکلنے کی خاطر، ہمیں ایک پرامید مستقبل کے لیے [مسائل] کے ایسے پائیدار حل تلاش کرنا چاہیئیں جو ہماری معشیت کو طویل مدتی بنیادوں پر مضبوط بنا دیں۔”
محکمہ خارجہ کے اقتصادی ترقی اور ماحولیات کے انڈر سیکرٹری، کیتھ جے کریچ نے اس نقطے کو اجاگر کیا کہ ” جدت طرازی دنیا بھر میں آزاد معیشتوں کا مرکزی ستون کیسے بنتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم کامیابی سے اس عالمی وبا سے نکل سکتے ہیں اور ایک مضبوط انداز سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔”
Congratulations to all 37 teams in the #48fortheFuture hackathon finals! You are the talented innovators who will help build a stronger post-COVID economy.
Thanks to @garage48 for their leadership along the way, to the mentors, and to our partners. You all are inspirations! https://t.co/ZuvTCQIsRr
— USEmbassyTallinn (@USEmbTallinn) December 7, 2020
ٹویٹ:
امریکی سفارت خانہ، ٹالین (ایستونیا)
#48fortheFuture (48 فار دا فیوچر) 37 ٹیموں کو ہیکا تھان کے فائنل میں پہنچنے پر مبارک ہو۔ آپ وہ ذہین جدت طراز ہیں جو کووڈ کے خاتمے کے بعد کے دور میں مضبوط معیشت کی تعمیر میں مدد کریں گے۔
اس عمل میں سرپرستوں، ہمارے شراکت کاروں کی راہنمائی کرنے پر@garage48 (@گیراج48) کی قیادت کرنے کا شکریہ۔ آپ سب متاثر کن لوگ ہیں۔
منتظمین نے بتایا کہ مقابلے میں حصہ لینے والے بعض لوگ اس شعبے میں نووارد تھے جبکہ بعض ماہر تجربہ کار کوڈر اور جدت طراز تھے۔ پہلی پوزیشن کے لیے مختلف درجوں کی حامل 37 ٹمیوں نے مقابلے میں حصہ لیا۔ اس سے انہیں تجربہ حاصل ہوا اور سٹارٹ اپ وائز گائز پروگراموں میں داخلے جیسے انعامات اور ایستونیا میں ہونے والی تقریبات کے لیے ٹکٹ جیتے۔
اس ہیکا تھان کے دوران ایستونیا اور لاتھویا میں امریکن چیمبر آف کامرس، یونیورسٹی آف لِنچبرگ، مائکروسافٹ، اور گوگل فار سٹارٹ اپس سمیت، درجنوں منتظمین اور کمپنیوں نے سرپرستانہ اور مواصلاتی سہولتیں فراہم کرنے میں مدد کی۔ اس پروگرام کے منتظمین نے دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مقابلے کے شرکا کو اپنے نظریات کو کوڈ کی شکل میں پیش کرن کے لیے بیک وقت 21 معیاری وقتوں (ٹائم زونوں) کے حساب سے ماہر سرپرستوں کا تقرر کیا۔
اس مقابلے میں شریک ٹیموں کو ایسے حل پیش کرنے کا کہا گیا جن سے مندرجہ ذیل شعبوں کے مستقبل کو فروغ مل سکے:-
- قابل اعتماد نیٹ ورک اور معلومات کے ذرائع
- تعلیم
- کام
- صحت
- سفر، سیاحت اور مہمان داری
- تفریح اور کھیل
- چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار

اس مقابلے میں جیتنے والے ایپ کا نام “گیمبٹ” تھا۔ منتظمین نے بتایا کہ اسے تیار کرنے والی ٹیم کا نام “ریکوری کمپینیئن” تھا اور اس کے ارکان کا تعلق ایستونیا اور آسٹریلیا سے تھا۔
ممکنہ طور پر نقصان دہ خوراک کی نشان دہی کرنے والا یہ ایپ صارف کی توانائی، نیند اور بشاشت کی سطحوں اور خوراک کے استعمال پر نظر رکھتا ہے۔ یہ ایپ اس طرح حاصل ہونے والے اعدادوشمار اور نمونوں کی بنیاد پر خوراک کے حوالے سے سفارشات مرتب کرتا ہے۔
فائنل میں جو ایپ پہنچے ان میں سے ایک کے ذریعے صارفین کپڑے خریدتے وقت پائیداری کی ترجیحات طے کر سکتے ہیں جبکہ دوسرے ایپ کی مدد سے صارفین باہمی اعتماد کے حامل کسی معاشرے میں ایک دوسرے سے ادھار رقم لے سکتے ہیں۔
ٹالین میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور، برائن روراف نے کہا، “ہر سال انہی دنوں میں کاروباری نظامت کاری کے مہینے کے دوران امریکہ کا محکمہ خارجہ ہماری معیشت میں جدت طرازی کو حاصل اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ عالمی وبا اس پیغام میں جلدی کے عنصر کا اضافہ کرتی ہے کیونکہ بحران کے بعد عالمی اقتصادی بحالی میں جدت طرازی کو ایک کلیدی محرک کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس مقابلے میں حصہ لینے والی ٹیموں نے حقیقی معنوں میں کامیابیاں حاصل کیں اور ٹالین میں امریکی سفارت خانہ کو اِن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔”