ایک طبی کارکن ایک عورت کے ناک سے کورونا ٹیسٹ کے لیے رطوبت کا نمونہ لے رہا ہے (© Mahmud Hossain Opu/AP Images)
امریکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کووڈ-19 کے ٹیسٹوں اور علاج کو بہتر بنا رہا ہے۔ اوپر تصویر میں ڈھاکہ، بنگلہ دیش میں 30 جنوری کو ایک مریضہ کو اپنا کووڈ-19 ٹیسٹ کرواتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ (© Mahmud Hossain Opu/AP Images)

امریکہ کی زیرقیادت نئے پروگراموں کا اعلان کیا گیا جن کے تحت لگ بھگ ایک درجن ممالک کو انسانی جانیں بچانے والی دوائیں فراہم کی جائیں گیں جب کہ دیگر ممالک کو کووڈ-19 کے مریضوں کے علاج کے لیے درکار میڈیکل  آکسیجن زیادہ مقدار میں فراہم کی جائے گی۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے کہا کہ “اس عالمی وبا نے انتہائی ضروری ادویات اور دیگر طبی سہولتوں تک رسائی میں اضافہ کرنے کی اہمیت کے بارے میں [ہمیں] ایک سبق سکھایا ہے۔”

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا گو کہ ستمبر 2021 کے بعد سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں کووڈ-19 کی ویکسینیں لگانے کی شرحیں  13 فیصد سے بڑھکر 56 فیصد یعنی چار گنا بڑھ چکی ہیں تاہم “عالمی سطح پر اِن ویکسینوں کے ذخیروں میں پائے جانے والے فرق کو دور کرنے اور شدید بیماری کے خطرات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی حفاظت کرنے” کے لیے ہمیں مزید کام کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر 23 ستمبر کو کووڈ کے عالمی ایکشن پلان  کے وزارتی اجلاس میں گرین فیلڈ نے مندرجہ ذیل تین پروگراموں کا خاکہ پیش کیا:-

‘ٹیسٹ سے علاج’ تک کے پروگرام

اِس پائلٹ [آزمائشی] پروگرام میں دس ممالک شامل ہوں گے جن کا مقصد اُن لوگوں کے ٹیسٹ کرنے میں مدد کرنا ہے جن کو کووڈ-19 کے سنگین خطرات درپیش ہیں۔ اِن پروگراموں کے تحت اگر کسی کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آتا ہے توفوری طور پر اُس کا علاج شروع کر دیا جائے گا۔

امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) اور ایچ آئی وی/ایڈز، تپ دق اور ملیریا کے خاتمے کا عالمی فنڈ، میزبان ممالک اور صحت عامہ کے ماہرین کی شراکت سے “ٹیسٹ سے علاج تک” نامی پائلٹ پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ اِن پروگراموں سے متعلقہ ممالک کو کووڈ-19 میں اضافے کی صورت میں تیزی سے حرکت میں آنے میں مدد ملے گی۔

یو ایس ایڈ نے بتایا کہ اِن دس ممالک میں بنگلہ دیش، بوٹسوانا، آئیوری کوسٹ، ایل سلواڈور، گھانا، لیسوتھو، ملاوی، موزمبیق، روانڈا اور سینیگال شامل ہیں۔

میڈیکل آکسیجن تک رسائی

 ایک طبی کارکن آکسیجن ماسک کے ربڑ کے دھاگوں کو کھینچ رہی ہے (USAID/Lameck Ododo)
امریکہ نے نرس سانڈرا کریمی اور دیگر کارکنوں کو علاج کے طور پر مریضوں کو آکسیجن لگانے کی تربیت دی۔ اوپرتصویر میں، کریمی 27 اکتوبر 2021 کو کینیا کے وینجیج ہسپتال میں کام کر رہی ہیں۔ (USAID/Lameck Ododo)

اِس وبا کیوجہ سے کووڈ-19 کے شدید بیمار مریضوں کے علاج کے لیے درکار میڈیکل آکسیجن کی عالمی رسد پر بوجھ پڑا ہے۔ تھامس-گرین فیلڈ نے بتایا کہ کووڈ سے پہلے افریقہ کے کم و بیش آدھے ہسپتالوں میں میڈیکل آکسیجن کی مناسب سہولتیں دستیاب ہوا کرتی تھیں۔

امریکی حکومت نے پہلے ہی میڈیکل آکسیجن فراہم کرنے، آکسیجن ذخیرہ کرنے والے ٹینک نصب کرنے اور مریضوں کے بستروں تک آکسیجن پہنچانے والے بنیادی طبی ڈہانچے کو بہتر بنانے کے لیے 50 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

اس پروگرام کے تحت یو ایس ایڈ، آئیوری کوسٹ، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، ایسواتینی، گھانا، جمیکا، لیسوتھو، ملاوی، موزمبیق، نمیبیا، نائجیریا، پاپوا نیو گنی، جنوبی افریقہ، تنزانیہ، ویت نام اور زیمبیا کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

ایک نئے عالمی کلیئرنگ ہاؤس

شراکت دار ممالک تمام معلومات و وسائل کو یکجا کرنے کے لیے ایک عالمی کلیئرنگ ہاؤس بھی قائم کریں گے تاکہ مطلوبہ ادویات و آلات تک اِن ممالک کی رسائی میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔ توقع ہے کہ یہ کلیئرنگ ہاؤس اگلے برس کام شروع کر دے گا۔ اس کا مقصد میڈیکل سپلائی کے سلسلوں کو زیادہ لچکدار اور موثر بنانا ہے۔ یہ کلیئرنگ ہاؤس میڈیکل کا سامان خریدنے والے اداروں اور ادویات اور طبی آلات کے پرزے بنانے والوں کو ایک جگہ اکٹھا کرے گا۔

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا کہ “ہم نے اس وبائی بیماری کے دوران دیکھا ہے کہ اِن ضروری اشیاء تک رسائی سے زندگی اور موت کے درمیان فرق پڑ سکتا ہے۔”

یہ نئے پروگرام فروری میں شروع کیے جانے والے کووڈ-19 گلوبل ایکشن پلان (جی اے پی) کے مندرجہ ذیل کاموں کو آگے لے کر چلیں گے:-

  • پوری دنیا میں کووڈ-19 کی ویکسینیں لگانے میں اضافہ کرنا۔
  • وبائی مرض کے سنگین مرحلے کو ختم کرنا۔
  • عالمی صحت کی سلامتی کو مضبوط بنانا۔

تھامس-گرین فیلڈ نے اس بات پر زور دیا کہ ” آئیے مل کر کام کرنا جاری رکھیں … تاکہ دنیا کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکے، دنیا [میں لوگوں] کو زیادہ صحت مند بنایا جا سکے، اور [دنیا کو] تمام وباؤں سے پاک کیا جا سکے۔”

یہ مضمون اس سے قبل 12 اکتوبر کو شائع ہو چکا ہے