کووڈ-19 کے “پہلے امریکی مریض” کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا سے نئی دواؤں کے تجربات میں تیزی

سوُٹ پہنے ہسپتال میں کھڑا ایک آدمی (© Ted S. Warren/AP Images)
ڈاکٹر جارج ڈیاز نے امریکہ میں کووڈ-19 کے پہلے مصدقہ مریض کا علاج کیا۔ (© Ted S. Warren/AP Images)

ریاست واشنگٹن میں پراویڈینس ریجنل میڈیکل سنٹر میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جارج ڈیاز نے امریکہ میں کووڈ-19 کے پہلے مصدقہ مریض کا علاج کرنے کے بارے میں بات کی۔

کووڈ-19 کی بخار، کھانسی اور تھکاوٹ کی مخصوص علامات کے ساتھ اس مریض کو ریاست واشنگٹن کے شہر ایوریٹ کے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

ہسپتال میں مریض کے داخلے کے ایک ہفتے کے بعد اور نمونیہ ہونے کے بعد، اسے ریمڈیسویر تجرباتی دوا دی گئی۔

ڈیاز نے بتایا کہ اس سے قبل ایبولا کی وبا کے دوران صحت مند رضاکاروں پر ریمڈ یسویر کے تجربات کیے جا چکے تھے۔ ایبولا کے معاملے میں یہ دوا محفوظ تو ثابت ہوئی مگر یہ موثر نہ تھی۔ اس دوا کے 24 گھنٹوں کے اندر کووڈ-19 کے “پہلے مریض” کو آکسیجن لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ ڈیاز نے کہا کہ اس وقت سے اب تک یہ مریض “بہت اچھا ہے۔”

ہسپتال کے سائن اور عمارت (© Jason Redmond/AFP/Getty Images)
جنوری میں ایوریٹ، واشنگٹن کے پراویڈنس ریجنل میڈیکل سنٹر کا ایک منظر۔ (© Jason Redmond/AFP/Getty Images)

امید افزا تجربات

“پہلے مریض” کے علاج کے فوراً بعد، پراویڈنس ریجنل میڈیکل سنٹر نے امریکی کمپنی گلیئڈ سائنسز کی تیار کردہ ریمڈ یسویر سے مریضوں کے علاج کے کلینیکل تجربات کا آغاز کر دیا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وہ مریض جن کا علامات ظاہر ہونے کے دس دن کے اندر اس دوا سے علاج کیا جاتا ہے اُن کی حالت ایسے مریضوں سے بہتر ہوتی ہے جن کا اِس دوا سے علاج نہیں کیا جاتا۔ امریکہ کے صحت کے قومی ادارے نے ریمڈ یسویر کے تجربات کا آغاز کر دیا ہے اور اس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کووڈ-19 کے مریض اس دوا کے استعمال سے چار دن جلدی صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

خوراک اور دواؤں کے ادارے ایف ڈی اے نے ایسے مریضوں میں ریمڈ یسویر کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی ہے جنہیں شدید نمونیا ہوتا ہے۔

تصویری خاکہ جس میں دکھایا گیا ہے کہ کووڈ-19 کی امریکی دوا کے تجربات جاری ہیں اور اِن میں سے 144 تجربات جاری ہیں اور 457 کی منصوبہ بندی کی گئی ہے (State Dept./M. Rios)
(State Dept./M. Rios)

دیگر علاجوں کے تجربات

امریکہ میں کووڈ-19 کے علاج کی ممکنہ دواؤں کے 144 تجربات چل رہے ہیں جن میں ایف ڈی اے کے مطابق 72 ایف ڈی اے کی زیرنگرانی کیے جانے والے تجربات بھی شامل ہیں۔ 457 مزید تجربات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

صحت کے عالمی ادارے کے کلینکوں میں کیے جانے والے تجربات کے بین الاقوامی رجسٹری پلیٹ فارم کی فہرست میں دنیا بھر میں کووڈ-19 کے کلینکوں میں کیے جانے والے علاجوں کی تعداد 2,739 ہے۔ اس تعداد میں مکمل ہونے والے اور جاری دونوں قسم کے تجربات شامل ہیں۔

محققین بھی اِس دوا سے کیے جانے والے علاجوں کا مطالعہ کر رہے ہیں اور امید افزا مگر ابتدائی نتائج جاری کر رہے ہیں۔

ہانگ کانگ میں جاری کلینیکل تجربات کے دوسرے مرحلے میں تین دواؤں کا مجموعہ سامنے آیا ہے جو ہلکے اور درمیانے درجے کے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کے علاج میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اِن دواؤں میں جرمنی کی بیئر کمپنی کی تیار کردہ “انٹرفیرون بیٹا-ون بی، امریکہ کی ایب وائی کمپنی کی تیار کردہ “لوپینا ویر/ریٹونا ویر”، اور سوئٹزر لینڈ کی کمپنی روش پراڈکٹس لمیٹڈ کی تیار کردہ “ریبا ویرین” نامی دوائیں شامل ہیں۔

طبی رسالے “لانسیٹ” میں شائع ہونے والے تجربات کے نتائج بتاتے ہیں کہ تین دواؤں کا آمیزہ اس وقت کے دورانیے کو کم کردیتا ہے جس کے دوران کسی شخص میں وائرس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور یہ وائرس دوسروں کو منتقل ہو سکتا ہے۔ اس علاج سے مریضوں کے ہسپتال میں داخل رہنے کے دن بھی کم ہو جاتے ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں تحقیق کے سربراہ، ڈاکٹر یُو کووک-یُنگ نے ‘میڈیکل نیوز ٹوڈے‘ کو بتایا کہ انٹر فیرون بیٹا ون بی اِن تین دواؤں سے کیے جانے والے علاج کا کلیدی جزو ہے۔ تاہم انہوں نے احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا، “ہمیں بہرصورت اس سے بڑے یعنی تیسرے مرحلے میں یہ تصدیق کرنا چاہیے کہ اکیلی انٹر فیرون بیٹا ون بی یا دوسری دواؤں کے ساتھ مل کر شدید بیمار ایسے مریضوں (کے علاج میں) موثر ثابت ہوتی ہے” جن میں اس وائرس کو پھیلنے کو زیادہ وقت ملتا ہے۔

ڈاکٹر ڈیاز کا مشورہ ہے کہ لوگوں کو عوامی صحت کے ماہرین کے سماجی فاصلے کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی “کووڈ-19 سے بچنے (کی موثر ترین احتیاطی تدبیر) سماجی فاصلہ ہی ہے۔”