
کسی نئے ملک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کرنا دشوار بلکہ ناممکن ہو سکتا ہے اور خاص طور پر جب ملازمت ڈھونڈنے یا پیشہ وارانہ زندگی دوبارہ شروع کرنے کی بات آتی ہے تو اِن مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
جب چار برس قبل یوگنڈا کے ٹام کرین مولنڈا ڈنمارک پہنچے تو اُن کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی جگہ تھی، نہ دوست اور نہ ہی اپنے پیشے کے حوالے سے کسی کے ساتھ تعلقات تھے۔
انہوں نے ایک وڈیو انٹرویو میں کہا، “مجھے نہیں سمجھ آتی تھی کہ میں کہاں سے شروع کروں۔ لہذا میرے لیے یہ انتہائی مشکل وقت تھا۔”
ڈنمارک میں امریکی سفارت خانے، امریکی ایوان تجارت اور نئے ڈینشوں کی تنظیم کی مدد سے چلائے جانے والے “ریفیوجی ایمبیسڈر پروگرام” کے ذریعے، مولنڈا نے بیرون ملک تعلیم کے ایک غیرمنفعتی پروگرام، “ڈی آئی ایس کوپن ہیگن” میں ایک تربیت کار کی حیثیت سے کام سیکھنا شروع کیا۔ اس تربیت کاری کے نتیجے میں بالآخرانہیں ایک ایسی کمپنی میں ملازمت ملی جس میں اب وہ طالبعلموں کو شہر کی واقفیت اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے انتظامات میں مہارت حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
مولنڈا کہتے ہیں کہ اب اُن کی زندگی میں ایک بہتر تبدیلی آ چکی ہے۔ کوپن ہیگن میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔
بہت سوں میں سے ایک
وہ ایسی ہی کہانیاں رکھنے والے ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں۔ 2014 اور 2015 کے درمیان شام، صومالیہ اور یوگنڈا سے لگ بھگ 36,000 پناہ گزین ڈنمارک آئے۔
نئے آنے والے انتہائی اعلٰی مہارت کے حامل پناہ گزنیوں کو اُن کے نئے وطن میں خوش آمدید کہنے کے لیے، نئے ڈینشوں کی تنظیم، امریکی سفارت خانے کی مدد سے تربیت کاری کے پروگرام چلاتی ہے۔ اِن پروگراموں میں شریک ہونے والے 250 افراد میں سے زیادہ تر ایسے تجربے کی بات کرتے ہیں جو انہیں ڈنمارک کی ملازمتوں کی مارکیٹ میں بہتر رسائی مہیا کرتا ہے اور جس سے اُنہیں ملازمتں تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
نئے ڈینشوں کی تنظیم کی پراجیکٹ مینیجر ٹرائن لنڈگارڈ ہوفمین کہتی ہیں، “اِن پروگراموں سے اُن کمپنیوں میں کمیونٹیوں کے لیے ایک بڑا احساس اجاگر ہوا ہے جو یہ پروگرام چلاتی ہیں۔” وہ کہتی ہیں کہ اِن کمپنیوں کے پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے سرپرست جب کمپنیوں کے اندرونی جائزوں کے لیے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ “فخر” اور “ٹیم کی مانند جذبے” جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔