کوڈ میں بات کرنے والے ناوا ہو کے ناقابل شکست فوجیوں کی یاد میں

ایک آدمی نے سینے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے جب کہ دوسرے سلیوٹ کر رہے ہیں (© Mario Tama/Getty Images)
نیویارک سٹی میں 11 نومبر 2009 کو ہونے والی سابقہ فوجیوں کی ایک پریڈ میں ناوا ہو کوڈ میں بات کرنے والے سلیوٹ کر رہے ہیں۔ (© Mario Tama/Getty Images)

دوسری عالمی جنگ میں جب بحرالکاہل کے محاذ پر جاپانیوں نے اتحادی فوج کے جنگی منصوبوں کو محفوظ رکھنے والی خفیہ زبان کو توڑ لیا تو امریکی میرین فوج نے مدد کے لیے ناوا ہو قبیلے سے رابطہ کیا۔

میرین کور نے پیچیدہ اور نہ لکھی جانے والی زبان، ناوا ہو کی بنیاد پر ایک کوڈ تیار کرنے کے لیے ناواہو قبیلے کے 29 مردوں کو منتخب کیا۔ 1942ء میں میرینز جب گواڈا کینال کے ساحلوں پر اترے تو ناوا ہو کوڈ میں بات کرنے والے 15 افراد اُن کے ہمراہ تھے۔

 دو فوجی کھلی جگہ پر ایک آلہ استعمال کر رہے ہیں (© PhotoQuest/Getty Images)
امریکی میرینز کے ناوا ہو کوڈ میں بات کرنے والے، پریسٹن ٹولیڈو اور اُن کے کزن فرینک ٹولیڈو 7 جولائی 1943 کو فوجی ریڈیو کے ذریعے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ (© PhotoQuest/Getty Images)

کوڈ میں بات کرنے والے پیٹر میکڈونلڈ نے، ناوا ہو کوڈ میں بات کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی وائٹ ہاؤس کی 2017ء کی ایک تقریب میں کہا، “یہ پہلی لڑائی تھی جس میں ناوا ہو کوڈ کو ایک حقیقی لڑائی میں یہ دیکھنے کے لیے آزمایا جانا تھا کہ دشمن کی بھاری گولہ باری کے دوران ہماری یاد داشت کس طرح کام کرے گی۔ ساحل پر اترنے کے تین ہفتے کے بعد پہلے میرین ڈویژن کے کمانڈر، جنرل وینڈر گرفٹ نے امریکہ پیغام بھیجا اور کہا، ‘ناوا ہو کوڈ زبردست ہے۔ دشمن اسے بالکل نہیں سمجھ سکا۔ ہم بھی اسے نہیں سمجھتے، مگر یہ کار آمد ہے۔ ہمارے لیے اور زیادہ ناوا ہو (قبیلے کے لوگ) بھجوائیں۔'”

کوڈ میں بات کرنے والے ٹیلی فون اور ریڈیو سے اپنی مادری زبان میں پیغامات بھیجتے تھے جن میں فوجی اصطلاحات کے لیے ناوا ہو زبان کے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے جو اُن کی زبان کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر “بم” کے لیے “آلو”  اور مختلف قسم کے جہازوں کے لیے مختلف پرندوں کے نام استعمال کیے جاتے تھے۔ وہ ایسے الفاظ کے ہجے کرنے کے لیے جو کوڈ کا حصہ نہیں ہوتے تھے انگریزی حروف کے لیے متبادل اصطلاحات بھی استعمال کرتے تھے۔

قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر کے مطابق کوڈ میں بات کرنے والے 20 سیکنڈ میں انگریزی کی تین سطروں کا ترجمہ کر سکتے تھے جبکہ اُس وقت موجود مشینوں سے اس طرح کے پیغام کو عام زبان میں ترجمہ کرنے میں 30 منٹ لگتے تھے۔ اِن مشینوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت بھی ہوتی تھی۔ اس کے برعکس کوڈ میں بات کرنے والے ریڈیو کے ساتھ کہیں بھی جا سکتے تھے۔

نیشنل پبلک ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق کوڈ میں بات کرنے والوں نے بحرالکاہل کے محاذ پر ہر بڑے معرکے میں حصہ لیا اور پوری جنگ کے دوران اپنے میرین فوج کے ساتھیوں کو اہم مدد فراہم کی۔ مثال کے طور پر ایوو جیما کی ایک ماہ طویل لڑائی میں کوڈ میں بات کرنے والے چھ فوجیوں نے 800 سے زائد پیغامات نشر کیے۔

جاپانی اس کوڈ کو کبھی بھی نہ توڑ سکے۔ کوڈ میں بات کرنے والے اِن میرین فوجیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے جدید فوجی تاریخ می ایسا کوڈ تیار کیا جسے کبھی نہ توڑا جا سکا۔ وہ 1945ء میں وی- جے ڈے (جاپان پر فتح والے دن) نامی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے دن تک کام کرتے رہے۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک تقریب میں کہا، “آپ خاص لوگ ہیں۔ آپ حیرت انگیز لوگ ہیں۔ اور ہم دل سے، دل کی گہرائیوں سے، آپ نے جو کچھ کیا ہے، جس طرح کیا ہے، جس دلیری کا آپ نے مظاہرہ کیا ہے اور آپ کے دل میں ملک کے لیے جو محبت ہے،  اس کی تعریف کرتے ہیں۔”

 صدر ٹرمپ نے ایک آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے جبکہ دوسرا آدمی انہیں دیکھ رہا ہے (© Susan Walsh/AP Images)
صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ناوا ہو زبان کے کوڈ میں باتیں کرنے والے پیٹر میکڈونلڈ (درمیان میں) اور تھامس بیگے سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (© Susan Walsh/AP Images)

جنگ کے خاتمے تک، کوڈ میں بات کرنے والے 400 ناوا ہو جنگ میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ جنگ کے دوران 13 ہلاک ہوئے۔ کوڈ میں بات کرنے والوں نے کئی دہائیوں تک اپنے کام کو خفیہ رکھا۔ فوج نے 1968ء میں اُن کے کام کو عام کر دیا۔

11 نومبر کو فوجیوں کے دن کوڈ میں بات کرنے والوں سمیت، آبائی امریکیوں کی فوجی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، آبائی امریکیوں کا قومی عجائب گھر، سابقہ آبائی امریکی فوجیوں کی قومی یادگار کی نقاب کشائی کرے گا۔

2001ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے کوڈ میں بات کرنے والے پہلے 29 فوجیوں کو کوڈ تیار کرنے پر کانگریس کے طلائی تمغے دیئے۔ اس کے علاوہ فوج میں خدمات انجام دینے والے درجنوں دوسرے ناوا ہو فوجیوں کو کانگریس کے چاندی کے تمغے دیئے گئے۔

بش نے تمغوں کی اس تقریب میں کہا، “ہم اُس کہانی کو تازہ کر رہے ہیں جس پر سب امریکی خوشیاں مناتے ہیں اور جسے ہر امریکی کو جاننا چاہیے۔  یہ جدید جنگ میں خدمات انجام دینے کے لیے بلائے گئے ایک قدیم قوم کے افراد کی کہانی ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے توڑے نہ جا سکنے والے کوڈ، (اور) ایک ایسی زبان میں ریڈیو پر ایوو جیما کی لڑائی میں پیغامات بھجوانے کی کہانی ہے جو صدیوں پہلے کولوراڈو کی سطح مرتفع پر بولی جاتی تھی۔ سب سے بڑھ کر، یہ ناوا ہو قبیلے کے اُن نوجوانوں کی کہانی ہے جو اپنی قوم کے لیے وقار اور فتح کا باعث بنے۔”