کاروباری نظامت کاروں کی زندگیوں میں ایسے لمحات مختلف طریقوں سے آتے ہیں جب اُن کے ذہن میں اچانک کوئی اچھوتا خیال آ جاتا ہے۔ موزمبیق کی مارٹا ونیا یوئیٹیلا کی زندگی میں یہ لمحے تب آئے جب کار کے حادثے میں اُن کے دوست کی ایک ٹانک ضائع ہوگئی اور اُسے دوبارہ چلنے کے قابل ہونے کے لیے ایک سستی مصنوعی ٹانگ کی ضرورت پیش آئی۔ مگر اُن کے دوست کو پتہ چلا کہ مصنوعی اعضا یا تو بہت مہنگے ہیں یا انہیں حاصل کرنے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یوئیٹیلا کے پاس انجنیئرنگ کی ڈگری تھی اور وہ (یالی) نامی افریقی لیڈروں کے پروگرام کے تحت کاروبار اور کاروباری نظامت کاری کی تربیت حاصل کر چکی تھی۔ یوئیٹیلا نے اپنے دوست کی مدد کرنے کے لیے ‘بائیو میک’ کے نام سے مصنوعی اعضا بنانے کا کاروبار کھولنے پر کام شروع کر دیا۔
بائیو میک کا آغاز
یوئیٹیلا کو قیمتیں کم رکھنے کے لیے مصنوعی اعضاء کے لیے سستے طریقے سے پلاسٹک اور دیگر مواد حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ اس نے دیکھا کہ جس مواد کی اُسے ضرورت ہے وہ سمندر کا پانی موزمبیق کے ساحلوں پر بہا کر لے آتا ہے۔

موزمبیق کی ساحلی پٹی 2,400 کلو میٹر لمبی ہے اور ماہی گیروں کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار اسی ساحلی پٹی پر ہے۔ بدقسمتی سے کچرہ اور ملبہ، بالخصوص پلاسٹک کا ملبہ اور مچھلیاں پکڑنے کے ناکارہ جال ماہی گیروں کے دیہاتوں اور بستیوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
کورونا کی وبا کے دوران ماحولیاتی گروپوں نے اِس ساحلی پٹی کی صفائی کی مہمیں چلائیں۔ سینکڑوں رضاکاروں نے پلاسٹک کا کچرہ جمع کیا۔ تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اِس کچرے کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔
موزمبیق کے ساحل کو بچانا
یوئیٹیلا نے خود سے سوال پوچھا کہ پھینکے جانے والے پلاسٹک اور مچھلی پکڑنے کے جالوں کو کیوں نہ مصنوعی اعضاء بنانے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جائے؟
یالی پروگرام کی اپنی تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوئیٹیلا نے اپنے منصوبے کے لیے شراکت دار تلاش کیے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا۔ اِن شراکت داروں میں سمندر سے نکالے گئے موادوں کو ری سائیکل کرنے والی ‘پروایزل’ نامی کمپنی بھی شامل تھی۔

یوئیٹیلا کا کہنا ہے کہ “سکول میں ہمیں چیزیں بنانے کا طریقہ تو سکھا دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ خوابوں کو حقیقی کاروبار میں کیسے تبدیل کرنا ہے۔ یالی پروگرام دوسروں کے ساتھ نیٹ ورک کرنے کا ایک بڑا موقع تھا۔ اور ہاں دھیان رہے کہ اِن [خوابوں] میں سے بعض کو حقیقت کا روپ دینے پر میں کام کر رہی ہوں۔”
مصبوعی اعضاء بنانے کے لیے ٹکنالوجی تیار کرنا
2020 میں یوئیٹیلا نے ایک ابتدائی نمونہ تیار کیا اور اس کے بعد اگلے چھ ماہ تحقیق کے لیے مالی وسائل کا بندوبست کرنے میں صرف کیے۔
اس نے برطانیہ کے سفارت خانے اور آئرلینڈ کے سفارت خانے کے ساتھ بھی شراکت داری کی۔ اِن دونوں سفارت خانوں نے مصنوعی اعضاء بنانے کی اسمبلی لائن کے لے تکنیکی مدد فراہم کی۔ اگرچہ مصنوعی اعضاء کے لیے ری سائیکل شدہ مواد استعمال کیا جاتا ہے مگر یوئیٹیلا مصنوعی اعضاء کو انسانی جسم سے جوڑنے کے لیے سلیکون کی سلیوز استعمال کرتی ہے۔
کاروبار کو پھیلانا اور مستقبل
یوئیٹیلا کا مصنوعی عضو کا پہلا ابتدائی نمونہ اس کے دوست ایوان کے حصے میں آیا۔ اس نے ری سائیکل مواد اور تھری ڈی پرنٹروں کا استعمال کیا اور مصنوعی اعضاء کے فریموں کی قیمت کو سینکڑوں ڈالر سے کم کر کے اوسطاً 45 ڈالر پر لے آئی۔
بائیو میک مصنوعی اعضا کی ڈیزائننگ میں بھی منفرد سوچ اپنا رہی ہے۔ مصنوعی اعضاء کی حتمی شکل کے بارے میں گاہکوں سے مشورہ کیا جاتا ہے۔

یوئیٹیلا نے بتایا کہ “ایسا کرنا ہمارا لیے ایک چیلنج ہوتا ہے کیونکہ ہمارے زیادہ تر گاہک نوجوان ہیں۔ اس کا تعلق محض مصنوعی اعضاء کی تیاری سے نہیں ہوتا بلکہ ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ ہم اُن کے لیے اِن اعضاء کو کس طرح آرام دہ بنا سکتے ہیں اور استعمال کرنے والے میں عزت نفس اور تخلیقی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔”
آج کل وہ موزمبیق اور انگولا میں 700 سے زائد گاہکوں کا ایک پائلٹ پروگرام چلا رہی ہیں۔ اِس میں وہ یالی پروگرام کے اپنے ایک سابق ساتھی، ٹیلمو بمبا کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ بمبا بائیو میک میں بھی اُن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
یوئیٹیلا یالی کے ذریعے سیکھی جانے والی قائدانہ صلاحیتوں پر شکر گزار ہیں۔ اُنہیں امید ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مصنوعی بازو بنا کر اپنے کاروبار کو توسیع دے سکیں گیں۔
ایک مختلف شکل میں یہ مضمون میڈیم میں شائع ہو چکا ہے۔