کیلی فورنیا کی سلیکون ویلی میں کمپیوٹر پروگرامر شمالی امریکہ کے بھورے رنگ کے شاندار ریچھوں کا مطالعہ کرنے میں جنگلی حیات کو محفوظ بنانے والے ماہرین کی چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے میں مدد کررہے ہیں۔
بھورے ریچھوں کے جسم پر مخصوص دھبے یا دھاریاں نہیں ہوتیں اور اُن کا وزن انتہائی تیزی سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے جس کی وجہ سے محققین کے لیے کسی مخصوص ریچھ کی نشاندہی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق سافٹ ویئر بنانے والوں اور سائنس دانوں نے اسی وجہ سے “بیئر آئی ڈی” (ریچھ کی آئی ڈی) نامی کمپیوٹر کا ایک نیا پروگرام بنایا ہے جس میں مصنوعی ذہانت استعمال کی گئی ہے۔ اس سے سائنس دان جنگلی ریچھوں پر ایسے نظر رکھ سکتے ہیں اور نگرانی کر سکتے ہیں جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
جریدے “ایکولوجی اینڈ ایوولوشن” (ماحول اور ارتقا) کے 6 نومبر کے ایک مقالے کے مطابق، بئیر آئی ڈی (پروگرام) ریچھوں کی تیزی سے شناخت کرنے کے لیے کمپیوٹر الگورتھم استعمال کرتا ہے۔ اس میں ریچھوں کے چہروں کی ویڈیو کی تصویروں کا پہلے سے معلوم شدہ ریچھوں کی ڈیٹا بیس میں موجود تصویروں کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے والے ماہرین ریچھوں کے تعلقات اور اُن کے رویوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مخصوص ریچھوں کی عادات کے بارے میں ذاتی معلومات پر انحصار کیا کرتے تھے۔
جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کے شعبے کا شمار اُن بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے جومصنوعی ذہانت میں امریکی جدت طرازوں کی پیشرفتوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ انسانوں کی طرح سوچنے یا ردعمل دینے کے لیے پروگرام کیے گئے کمپیوٹر پہلے ہی سے بیماریوں کی تشخیص کرنے، گاڑیاں چلانے اور قدرتی آفاتوں کی پیشین گوئیاں کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اگست میں امریکی حکومت نے مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹروں جیسی اُن جدید ٹکنالوجیوں پر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جنہیں کمپنیاں دنیا کے اہم ترین مسائل کو حل کرنے کے لیے فروغ دے رہی ہیں۔
مزید برآں، امریکی حکومت ہر سال جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے پر 100 ملین ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کرتی ہے۔ اس رقم سے جنگلی حیات کی نگرانی کرنے اور جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے سے متعلقہ مسائل کے اختراعی حل ڈھونڈنے میں مدد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر پروگرام بھی ہیں جن میں سے ایک، محکمہ خارجہ کا زوہیکاتھان نامی عالمی مقابلے کا سالانہ پروگرام ہے۔ اس کے تحت جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے کے مسائل کے اختراعی حل نکالنے میں مدد کی جاتی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق بیئر آئی ڈی کے خیال کا تعلق 2017ء کے ان دنوں سے ہے جب سافٹ ویئر بنانے والے ایڈ ملر اور میری نیوئن نے مشینی تعلیم کے بارے میں آن لائن کلاسوں میں داخلہ لے رکھا تھا اور اپنے فارغ وقت میں وہ الاسکا کے کیٹمئی نیشنل پارک میں ریچھوں کو ‘لائیو سٹریم’ پر دیکھا کرتے تھے۔ جب ملر کو ریچھوں کی شناخت کا مسئلہ پیش آیا تو اُن کے ذہن میں بیئر آئی ڈی کے خیال نے جنم لیا۔
ملر اور نیوئن نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف وکٹوریا کی ایک محقق، میلانی کلیپ ہیم اور رین کوسٹ کنزرویشن فاؤنڈیشن کے، کرِس ڈیریمونٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا۔ کلیپ ہیم اور ڈیریمونٹ دونوں اس نقطے پر غور کر رہے تھے کہ مصنوعی ذہانت جنگلی حیات کی محفوظگی کی کوششوں کو کس طرح فروغ دے سکتی ہے۔
نیوئن نے ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے اور ملر نے ریچھوں کی 4,000 تصویروں کا جائزہ لیا اور ہر ایک ریچھ کی نشاندہی اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے کی۔ اس ڈیٹا سیٹ نے کمپیوٹر کے پروگرام کو سکھایا کہ کسی ریچھ کے چہرے کی نشانیوں کو کچھ طرح پہچانا جاتا ہے اور اُن نشانیوں کو پہلے سے معلوم شدہ ریچھوں کی تیزی سے نشاندہی کرنے کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کے نتائج کی درستگی کی شرح 84 فیصد رہی۔
بیئر آئی ڈی سافٹ ویئر بنانے والوں نے کمپیوٹر کوڈ شائع کر دیا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سافٹ ویئر کو بہتر بنا سکیں یا دنیا بھر میں ایسے جانوروں کو پہچاننے کے لیے اس پروگرام میں ردوبدل کر سکیں جنہیں پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔
کلیپ ہیم نے ٹائمز کو بتایا، “ہمیں اس میں جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ کسی دن ہم کسی جگہ دیکھیں گے کہ لوگ چپکے سے لگائے گئے کیمروں سے لی گئی تصویروں کو اپ لوڈ کر سکیں گے اور سافٹ ویئر کا نظام نہ صرف یہ بتائے گا کہ آپ نے کس قسم کا جانور دیکھا ہے بلکہ یہ بھی بتائے گا کہ آپ نے کون سا انفرادی جانور دیکھا ہے۔”